متنازعہ ویڈیو: عذر گناہ بدتر از گناہ (حصہ دوم)
مولانا خانزیب
ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں اس وقت جو ممالک سرگرم ہیں ان میں امریکہ پیش پیش ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور ہم جنس پرستی کے حق میں مختلف دلائل دے رہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے 113 ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے جن میں مالی، اردن، قازقستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا اور آذربائیجان جیسے 9 مسلمان ممالک بھی شامل ہیں اور 76 ممالک میں غیرقانونی ہے۔
اہل مدارس میں بہت سے اہل خیر بھی ہیں اس لئے تمام دینی مدارس یا علماء کو مطعون کرنا انصاف نہیں مگر کسی بھی نظام کو وقت کے ساتھ اصلاح پذیر نہ کرنا اس طرح کے واقعات کا موجب بھی بنتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک انفرادی واقعہ ہے مگر اس کے اسباب و علل اور اس پر مرتب ہونے والے وقوع پذیر نتائج بیشمار ہوتے ہیں۔
کچھ باتیں اور حقائق ایسے ہیں جنہوں نے میرے خیال میں مدارس کے انتظام کے حوالے سے کافی عرصہ سے سوالات کھڑے کئے ہیں جن کا حل اور علاج انہی مدارس کے ذمہ داروں کے ذمے ہے۔ 1866 میں دارالعلوم دیوبند کے بعد موجودہ مدارس کا ارتقاء ہوا اور پورے ہندوستان میں انگریز کی ضد پر مدارس کا جال بچھایا گیا۔ دیوبند کے مہتمم مولانا قاسم نانوتوی دیوبند کے مقاصد کے حوالے سے اپنے ملفوظات میں کہتے ہیں کہ 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد ہمارا مقصد ہے کہ ایسے نظریاتی لوگ تیار کریں جو فرنگی سامراج کی غلامی سے قوم کو نکالنے کیلئے کردار ادا کریں، دارالعلوم دیوبند نہ تو مسلح جنگ کیلئے بنایا گیا اور نہ ہی دیوبند سے کبھی اس طرح کے فتاویٰ صادر ہوئے جو کچھ بھی مسلح مزاحمت کے حوالے سے بعد میں ہوتا رہا وہ درحقیقت مولانا محمود الحسن اور دیگر اشخاص کے انفرادی افکار و نظریات تھے۔ اس وقت حصول علم سے ان کا مقصد وہ بنیادی خلا جو کہ معاشرتی جہالت تھی اس کیلئے کردار ادا کرنا تھا، علم کی روشنی پھیلانے کا مقصد بعد میں 1910 کے بعد مولانا فضل محمود مخفی، حاجی صاحب ترنگزئی اور باچا خان نے بھی شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے مشورے سے آزاد مدارس کی شکل میں ریاستی سرپرستی کے بغیر جاری رکھا لیکن آزادی کے بعد ان مدارس کا ریاستی انتظام سے ہٹ کر دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا بیشمار سیاسی اور سماجی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
مدارس دینی علوم کے مراکز ہیں مگر دوسری طرف اس کے بھی بیشمار تقاضے اور لوازمات ہوتے ہیں۔ مدارس کا موجودہ نصاب تعلیم احادیث کے صحاح ستہ کے علاؤہ فرسودہ ہو چکا ہے، نئے حالات اور عصری تقاضوں کے مطابق اجتہادی مسائل اور قرآن وسنت کے علاوہ دیگر علوم کی تجدیدی اشاعت نئے تعبیرات و تشریحات اور ترویج اب عصری تقاضوں کے مطابق لازم ہیں۔
نصاب میں اصلاح نہ لانا مدارس میں پڑھنے والے ان لاکھوں طلبہ کے ساتھ بھی ظلم ہے جو موجودہ وقت میں، علم کلام، علم ہیئت، سائنس، فلسفہ، منطق، جدید متمدن فقہہ اور دیگر علوم معرفت سے لاعلم ہیں۔ تعلیم خواہ وہ دینی ہو یا عصری، اس کا اہتمام موجودہ جدید متمدن دنیا میں قومی ریاستوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریاست سے ہٹ کر یہ ذمہ داری کسی طبقے یا ادارے کا اپنے سر لینا ریاست کو مجرمانہ غفلت پر آمادہ کرنا ہوتا ہے، جو اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور پھر فارغ التحصیل طلبہ کیلئے ریاستی مشینگری میں کوئی ایڈجسمنٹ نہ کرنا مزید سماجی المیوں کا باعث بنتا ہے۔
جو پانچ لاکھ افراد ہر سال ان مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان کے مستقبل کے حوالے سے کسی نے آج تک سوچا ہے؟ اسی طرح پاکستان میں مدارس کو دینی جماعتوں کا اپنی سیاست کیلئے استعمال اور دینی جماعتوں کی طرف سے اپنے مخصوص نظریات کی ترویج کیلئے ذاتی مدارس کا قیام مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کا سبب بنتا ہے جس سے بدنامی صرف اور صرف اسلام کے مقدس دین کے حصے میں آتی ہے۔
طلبہ کا سیاسی استحصال اور تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے طلبہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ایک گھناؤنا جرم ہے جس میں مذہبی جماعتیں شر انگیز اور فتنہ گر کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مدارسِ کو ریاست کے انتظام و انصرام سے باہر رکھنا، مدارس کی رجسٹریشن نہ کرنا، مدارس کے چندوں کا چند مہتممین کے ہاتھ میں بغیر کسی احتساب و جانچ پڑتال کے مصارف کرنا ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اگر ہزاروں مدارس کا چلانا چند مہتمم حضرات کا کام ہے تو پھر ریاست، وزارتِ تعلیم اور مذہبی امور کی وزارتیں و ملکی ادارے کس لئے ہیں؟
میرے خیال میں مدارس میں جامع اصلاحات اب وقت کی ضرورت ہیں، اسے قانون اور ایک ریاستی نظم کے نیچے لانا دین و دنیا دونوں کی فلاح کیلئے ضروری ہے، اسلام صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہے، کیا ساری دنیا میں ہر ریاست کے قوانین اور انتظام و انصرام کے اندر رہتے ہوئے ان مدارس نے دین کا کوئی خسارہ کیا ہے یا صرف پاکستان کے مدارس ہی ساری دنیا میں مذہبی تعلیم دے رہے ہیں اور باقی دنیا ان کی خدمات لینے سے مستفید ہو رہی ہے۔
مدارس کے پڑھے ہوئے 90 فیصد طلبہ اس ملک کے غریب عوام کے بچے ہوتے ہیں، فراغت کے بعد کسی مسجد میں مؤذن یا امام ہو جاتے ہیں، کسی مدرسے میں پڑھاتے ہیں، جن کی قسمت اچھی ہوتی ہے وہ جمعہ کے خطبہ پڑھاتے ہیں اور جو زیادہ مستعد ہوتے ہیں وہ نئے مدارس کھول لیتے ہیں پھر اُس آمدنی سے اپنے گھر واخراجات تو پورے ہو جاتے ہیں لیکن مدارس کی حالت ویسے کی ویسے ہی غیرمتبدل اور جمود کا شکار رہتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں مذہب ایک حساس موضوع ہے وہاں دینی تعلیم خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اصولی طور پر تو دینی تعلیم کو ہماری رسمی تعلیم کا بنیادی جزو ہونا چاہئے کیونکہ جب رسمی تعلیم میں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم سے بھی روشناسی حاصل ہو رہی ہو گی تو نہ صرف ان کو آگاہی ہو گی بلکہ دینی مدارس کے مقابلے میں رسمی تعلیم کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
لیکن یہاں ہماری رسمی تعلیم کے تناظر میں دو بنیادی سطح کے مسائل غالب ہیں۔ اول ریاست اور حکمران طبقہ معاشرے کے ہر بچے اور بچی کو بنیادی تعلیم دینے سے قاصر ہے۔ اس کا بڑا ثبوت ریاستی اعدادوشمار کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوئم جب ہماری رسمی تعلیم دینی تعلیم کے ساتھ نہیں جڑے گی تو دینی مدارس سے جڑی دینی تعلیم کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
بہت سے مدارس کی بنیاد فرقوں کی بناء پر ہے۔ ہر فرقہ اپنی سیاسی مذہبی اور اخلاقی برتری کو بنیاد بنا کر دوسروں سے زیادہ فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ دینی تعلیم کے بجائے فرقہ وارانہ بنیاد پر حاصل کردہ تعلیم سے جڑ جاتے ہیں اور اس کی بنیاد دوسرے فرقوں کی نہ صرف نفی ہے بلکہ وہ ان کے بارے میں شدید مخالفانہ جذبات بھی رکھتا ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک دوسرے کے فرقوں کے بارے میں تعصبات پیدا ہوتے ہیں، گاؤں میں جا کر وہ مذہبی منافرت اور مناظروں میں لوگوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ فرقوں کی بنیاد پر دی جانے والی تعلیم کی بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ اس میں وہ خود کو بہتر مسلمان اور دوسروں کو کم تر مسلمان سمجھتے ہیں یا ان کو مسلمان ماننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ پاکستان نے عملی طور پر فرقہ وارانہ مسائل کی سنگینی دیکھی ہے اور اگر ریاست مدارس کے حوالے سے اصلاح کے عمل کو نہیں بڑھائے گی تو پھر یہ حقیقت کھل کر ثابت ہو گی کہ ریاست ماضی کی طرح اب بھی پلان شدہ جنگوں کیلئے مذہب اور مدارس کے استحصال کو اپنی پالیسی کا جزء لاینفک سمجھتی ہے۔
نظام الدین محمد انصاری سہالوی (وفات 1748) دراصل ملا نظام الدین کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ درس نظامی کے یہ بانی ملا نظام الدین سہالوی لکھنوی جن کا مرکز فرنگی محل لکھنو تھا۔ درس نظامی کے نام سے جو نصاب آج تمام مدارس عربیہ میں رائج ہے وہ ان ہی کی یادگار ہے۔ ملا نظام الدین نے دور سوم کے نصاب میں اضافہ کر کے ایک نیا نصاب مرتب کیا اور اس دور میں پڑھائی جانے والی کتابوں کو حتی الامکان جمع کرنے کی کوشش کی۔ درس نظامی میں تیرہ موضوعات کی تقریباً چالیس کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ فقہ اور اصول فقہ کے ساتھ، تفسیر میں جلالین و بیضاوی اور حدیث میں مشکوة المصابیح داخل تھی۔ انھوں نے ریاضی اور فلکیات کی کئی کتابیں اور ہندسہ (انجینئری) پر بھی ایک کتاب شامل نصاب کی۔ اس میں طب، تصوف اور ادب کی کوئی کتاب شامل نہیں تھی اور منطق و فلسفہ کو خاصی جگہ دی گئی چونکہ یہ سب کچھ تین سو سال پہلے کے غیرریاستی ماحول کو دیکھ کر ترتیب دیا گیا تھا مگر اب تین سو سالوں میں دنیا بدل گئی ہے، ہر چیز کی ارتقائی ہیئت کذائی کو اب تین سو سال پہلے کے بجائے نئے دور کے سماجی تقاضوں کی عینک سے دیکھنا ہو گا۔
اسلام قیامت تک کا دین ہے، حکمت و علم اس کے پیچھے یہی ہے کہ ہر زمانے کے سماجی ماحول میں یہ ڈھل جاتا ہے اسے خشک اور جمود کا شکار دین بنانا اسلام کے آفاقی پیغام سے لاعلمی کی دلیل ہے، اگر آپ دنیا کے ساتھ نہیں چلیں گے تو دنیا آپ سے بہت آگے نکل جائے گی اور تم سٹاپ پر کھڑے کھڑے دنیا سے بہت دور رہ جاؤ گے۔