تاریخ، تاریخ کے معنی اور تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ
مولانا خانزیب
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور ان کے واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں ”اَرخ” سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن، عرصہ، وقت وغیرہ لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامعہ انسانی کے انفرادی و اجتماعی اعمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے تاکہ تمدن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں آثار قدیمہ سینہ بسینہ روایات اور دوسری پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے، البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی جاتی ہے۔
کسی قوم کے ماضی کے واقعات جسے عرف عام میں تاریخ کہا جاتا ہے، کسی بھی قوم کا قومی حافظہ ہوتا ہے، جتنا کسی انسان کی ذات کیلئے اس کا شخصی حافظہ ناگزیر ہوتا ہے، کیونکہ اگر کسی کا حافظہ درست نہ ہو تو اسے معاشرے میں دیوانہ کہا جاتا ہے، اسی طرح جب کوئی قوم اپنی ماضی سے ناخبر اور لاتعلق ہو تو وہ پوری کی پوری قوم دیوانوں کا ہجوم ہو گی اور وہ گزرے ہوئے تجربات کو دیکھنے کے بجائے خود تجربہ بنے گی، انفرادی دیوانگی کا نفع نقصان کسی شخص کی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن اجتماعی دیوانگی کے تباہ کن نقصانات کا احساس بھی پورے معاشرے کی بے حسی کے حوالے سے دل خراش ہے۔
کسی قوم کی اپنی ماضی کی تاریخ سے درست واقفیت اس قوم کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی قومی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا درست تجزیہ کر کے اپنے حال سنوارے اور پھر اسی درست حال کی برکت سے شاندار مستقبل کیلئے پرجوش ولولے اور عزم کے ساتھ بالفعل متحرک ہو۔
پختونوں کا ایک قومی المیہ یہ بھی ھے کہ ہم زیادہ دور تو درکنار اپنے ماضی قریب کے ایک صدی کے قومی تاریخ سے بھی آگاہی حاصل نہیں کرتے، چند لوک داستانوں اور جنگی کہانیوں کو اپنی پوری تاریخ سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ رہی سہی کسر مفلوج و معذور نصاب تعلیم نے پوری کی ہے جو قوم کو مکمل طور پر اپنی حقیقی تاریخ سے متنفر کر کے ان کو ہیر رانجھا کی لوک کہانیوں سے ان کے دلوں کو بہلایا جاتا ہے، ہماری بدبختی حال میں اٹکی ہے اور اس حال کو اپنی تاریخ سے درست واسطہ رکھ کر ہی ٹھیک کرسکتے ہیں۔
فرانسیسی مؤرخ مارک بلوخ نے روایتی تاریخ نویسی کے حوالے سےکہا تھا کہ تاریخ عمر رسیدہ ہو چکی ہے کیونکہ اس میں دیو مالائی قصوں کہانیوں اور مبالغہ آمیز روایات کی بھرمار ہو گئی ہے، تاریخ کو صرف پندرہ فیصد اشرافیہ کے گرد بنانے کی روایت ڈالی گئی ہے جبکہ پچاسی فیصد عام لوگ جو اصل تاریخ بنانے والے ہوتے ہیں، ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے، ماضی میں تاریخ کو مصنوعی اور جھوٹی روایات کی بنیاد پر ناقابل اعتبار بنانے کی کوشش کی گئی ھے، بادشاہ سلامت کے دربار میں لکھاریوں کو معاوضہ دے کر بٹھایا جاتا تھا اور کسی قسم کی تنقیح و تنقید کے بجائے بادشاہ سلامت کی تقدیس و جلال کیلئے اسے مافوق الفطرت بنانے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے، تاریخ اب قصہ گوئی کے بجائے ایک مستند حقیقت بنی ہے جس میں سائینسی وسائل کے ساتھ ڈی این اے تک سے مدد لی جاتی ہے، تاریخ کو عمر رسیدگی سے بچانے کیلئے مؤرخوں پر ذمہ داری پڑتی ہے کہ وہ روایتی تاریخ کے ساتھ تاریخ کو اپنے درست منہج پر لانے کیلئے تاریخ کو غیر روایتی انداز میں بھی پیش کریں تاکہ صدیوں سے پڑے جمود اور مبالغہ آمیز روایات کا سائنس کے ذریعے تھوڑ ہو سکے۔
عبد الخالق خلیق کے مطابق تاریخ ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا نام ھے، پختون مؤرخ بھادر شاہ ظفر کاکاخیل کے مطابق تاریخ اپنے وسیع تر مفہوم میں انسان کے زندگی کے مختلف کارناموں اور واقعات سے آگاہی کا نام ھے، رحیم شاہ رحیم کے مطابق تاریخ نہ علم ھے نہ آرٹ بلکہ یہ اب جدید دور میں ایک سائنس بن چکی ہے۔
تاریخ کو پہلی دفعہ سائنسی شکل میں مسلمان مؤرخ محمد ابن خلدون نے چودھویں صدی عیسوی میں ترتیب دیا اگرچہ وہ بھی اپنی تاریخ میں اپنے ہی اصولوں سے ڈگمگائے ہیں، ابن خلدون کہتا ھے کہ تاریخ زمانوں اور سلطنتوں کے روایات سے زیادہ اصلیت نہیں رکھتا لیکن درحقیقت تاریخ تحقیقی نظر عام لوگوں کے باریک اصولوں اور ان کی وجوہات کی بیان کی گہرائی کا نام ہے جس کا تعلق واقعات، کیفیات اور ان کے اسباب کے ساتھ ہوتا ہے، ابن خلدون کے مطابق تاریخ کا ہر رگ فن کے ساتھ معلق ہے اور علم تاریخ اس قابل ہے کہ اس کا شمار علوم سائنسیہ میں کیا جائے۔
علی خان مسید کے مطابق کسی قوم کی تاریخ لکھنا بڑا مشکل کام ھے جو علم وسائل اور درست حوالے کا محتاج ہوتی ھے وہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا مفروضوں اور جھوٹی روایات سے تاریخ نہیں بنائی جا سکتی کیونکہ موجود سائنسی دور میں درست حوالے کے پیچھے درست دلیل کی موجودگی ضروری ہوتی ھے۔
تاریخ نویسی کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ قدیم داستان گوئی سے لے کر مذہبی اور الہامی کتابوں تک کو انسان کے ابتدائی تاریخی مآخذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ بائبل کا عہد نامہ عتیق و جدید ہو یا رامائن اور مہا بھارت یا قرآن مجید اور دوسرے صحائف، ان میں روایات و حکایات کو خیر اور شر کی قوتوں کے مابین ٹکراؤ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ان سے سبق لینے اور ہدایت پانے کی باتیں کی گئی ہیں۔ گویا تاریخ نویسی کا آغاز خیر اور شر کی جدلیات کے بیان سے ہوا جسے انسان کے حال اور مستقبل کی بہتری کے لیے ہدایت پانے کا ذریعہ بتایا گیا۔
معروف معنوں میں تاریخ نویسی کا آغاز یونانیوں اور رومیوں نے کیا۔ ہیروڈوٹس، جسے تاریخ نویسی کا باوا آدم کہا جاتا ہے، اور دیو جانس، پلوٹارک اور جوزفس باقاعدہ تاریخ نویسی کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ قدیم تاریخ نویسی حکمران خاندانوں کے بارے میں روایات و حکایات کو یکجا کرنے کا کام تھا مگر اب تاریخ کے علم نے بھی دوسرے بہت سے علوم کیطرح پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے جانا ھے جسمیں مستقبل میں قوموں کی عروج وزوال کی داستانوں کے بجائے انکی سائینسی ارتقاء کی امیدیں ہیں۔
آج جو کچھ ہم اپنے وطن میں دیکھ رہے ہیں، یہ کوئی نیا کچھ نہیں بلکہ اس خطے پر زمانوں سے تاریخ کے جبر کا تسلسل ہے، جس میں ہمیں اوروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود احتسابی اور اپنی قومی و انفرادی غلطیوں کا درست تجزیہ بھی کرنا ہو گا، تب ہم اپنے ماضی سے درست سبق حاصل کر کے اپنے حال کو سنواریں گے اور اس کے واسطے روشن مستقبل میں داخل ہوں گے۔