جون کامہینہ،ٹھنڈیانی کی سرد رات اور میری خوشی
انیلہ نایاب
‘گھر کی مرغی دال برابر ‘ یہ محاورہ تو سب نے سنا ہوگا کیونکہ ہمارے اردگرد ایسے ہزاروں قیمتی اشیاء اور دیگر چیزیں موجود ہے جس کی ہمیں قدر ہی نہیں ان میں سے ایک واضح مثال ہمارے پیارے ملک کی خوبصورتی ہے۔
آپ میں سے بہت نے کسی نہ کسی سے باہر ملکوں کی تعریفیں سنی ہوگی اور ضرور دل میں ایک حسرت سی پیدا ہوئی ہوگی کہ کاش ہم بھی کبھی اپنی انکھوں سے یہ خوبصورتی دیکھ لے لیکن کبھی اپنے ملک کی خوبصورتی پر غور نہیں کیا ہوگا کیونکہ یہ تو ہمارے اردگرد ہوتے ہیں اس لئے ہمارے پاس اس کی قدر ہی نہیں ہوتی ۔
یقین ماننے اگر آپ پاکستان کے پہاڑی مقامات کی سیر کے لئے جائیں تو اس خوبصورتی کو آپ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔
یہ جون کا مہینہ تھا اور مجھے پوری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی تھی کہ کب صبح ہوگئی اور ہم ٹھندیانی کے لئے روانہ ہونگے۔ اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی اور جلدی جلدی تیار ہوکر ہم سب مانسہرہ کے آغوش میں واقع ٹھندیانی روانہ ہوئے ۔ ہائے اللہ ! میں کتنی خوش تھی کہ راستے میں پہاڑی سلسلہ شروع ہوا ، وہ بلند وبالا پہاڑ ، وہ خوبصورت اور دلکش مناظر جو میں کبھی بھی بھول نہیں سکتی ۔
دوپہر کا وقت تھا آلودگی سے صاف ہوا دل کو چھو رہی تھی اور ہم سب کو بہت بھوک لگی تھی، ہم سڑک کے کنارے رک گئے جس کے ایک طرف سرسبز پہاڑ اور دوسری جانب کھائی تھی، کھائی میں گنا جنگل تھا جس کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا تھا ۔ ہم نے وہی بیٹھ کر دوپہر کا کھانا پکایا جبکہ کھانا کھانے سے زیادہ ہم نے وہاں کی تازہ ہوا سے مزے لے لیں اور وہاں سے جانے کا دل نہیں کررہاتھا لیکن اب تو ہمیں مزید سفر کرنا تھا اسلئے ہم اپنے منزل کی طرف روانہ ہوئے۔
جیسے جیسے ہم بلندی پر چھڑتے گئے موسم میں تبدیلی آتی رہی اور دھیرے دھیرے مجھے ٹھنڈ محسوس ہونے لگی کیونکہ ہم اب ٹھنڈیانی پہنچ گئے تھے۔ میرے خیال سے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے اس جگہ کا نام ٹھنڈیانی رکھا گیا ہے ، وہاں ہر ٹھنڈی ہوا، ہر طرف ہریالی اور تازہ ہوا یہ سب دیکھنے میں بہت دلکش تھا۔
تھوڑا اور سفر کرنے بعد ہم ٹھنڈیانی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے اور وہاں بادلوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بادلوں کو چھو سکتی ہوں ۔ وہاں پہنچ کر میں بھول گئی کہ ہم جون کے مہینے میں یہاں آئے ہیں کیونکہ وہاں دسمبر جیسی سردی تھی ۔ تیز ہوا کے ساتھ موسلادار بارش شروع ہوگئی اور ہم گاڑی سے اتر کر گیسٹ ہاؤس کی طرف چلنے لگے ، راستہ کافی خطرناک تھا اور مجھے راستے میں خوشی کے ساتھ ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ اب ہمیں واپس بھی جانا ہوگا۔
قدرتی خوبصورتی سے مالامال ٹھنڈیانی میں ہمیں صاف پانی ، بجلی اور موبائل سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں کھانے پینے کی مخصوص چیزیں ملتی تھی لیکن وہ بھی کافی مہنگی ہوتی ہیں اسلئے بہتر ہوگا کہ سیاح جاتے وقت اپنے ساتھ کھانے اور پینے کی اشیاء ضرور لیکر جائے تاکہ بعد میں انہیں مشکلات نہ ہو۔
رات کا وقت تھا ہم سب بہت تھک گئے تھے اور بارش بھی برس رہی تھی تاہم سردی کی شدت کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی لیکن پتہ نہیں رات کے کس پہر میری انکھ لگ گئی اور صبح کوئل کی خوبصورت آواز سے میری انکھ کھلی۔ ناشتہ کرنے بعد جب ہم گیسٹ ہاؤس سے باہر نکلے تو میں نے اپنی انکھوں میں ایک عجیب سا منظر دیکھا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔
اس بلند مقام سے اردگرد کی بلندیوں اور ڈھلوانوں پر سیاہی مائل سبز جنگلات عجیب منظار پیشں کررہے تھے یہ جنگل اس قدر گھنے تھے کہ اس میں سورج کی روشنی بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتی اس وجہ سے درختوں کے نیچے اور سایہ دار جگہوں پر گرمی کے موسم میں بھی سفید برف جمی ہوئی تھی۔
عرض یہ کہ ٹھنڈیانی بہت خوبصورت سیاحتی مقام ہے لیکن رہائشی مقام نہیں اور ملکی سیاح سیمت غیر ملکی سیاح بھی جون ، جولائی اور اگست کے مہینوں میں وہاں کا رخ کرتے ہیں لیکن سیاحتی مقامات دیکھنے کے بعد میرا دل گھر لوٹنے کے لیے بے قرار تھا۔