"مشکلات ہر فیلڈ میں ہوتی ہیں ، لڑکیوں کو صحافت میں آنا چاہیے”
انیلا نایاب
’اچھا تو اب حجروں میں ٹی وی کے سامنے لوگ جمع ہو کر کہیں گے کہ یہ جہانگیر کی بیٹی، فلاں کی بھتیجی ہے یہ ایک اور شرم۔۔۔’
پشاور میں رہائش پذیر شبقدر سے تعلق رکھنے والی ناہید جہانگیر ماس کمیونیکیشن میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں Mphil کر چکی ہیں۔ ناہید جہانگر نے ٹی این این کے ساتھ اپنی کہانی شیئر کی ہے جو انہی کی زبانی نذر قارئین کی جاتی ہے۔
”جب پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم میں زیر تعلیم تھی تو ایک روز ٹریننگ کے دوران پشتو سکرپٹ لکھنا تھا، اس دوران ایک استاد نے مجھے مشورہ دیا کہ کیوں نہ تم پشتو نیوز کرو، پشاور یونیورسٹی کے زریعے تم پی ٹی وی جوائن کرو، پھر وہاں سے پشتو نیوز کا آغاز کیا۔
خاندان والے اس بات سے لا علم تھے کہ ناہید جہانگیر سکرین پر آ کر نیوز کریں گی، جب گھر آ کر پوچھا تو والد نے کہا بیٹا جب آپ کی فیلڈ ہی یہی ہے تو پھر سکرین پر آنے میں کیا قباحت ہے، بیٹا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
پی ٹی وی نے مجھے ٹریننگ دی اور پھر میں سکرین پر آن ائیر ہوئی، چونکہ گاؤں میں پی ٹی وی کافی شوق سے دیکھا جاتا تھا تو تقریباً سب نے مجھے سکرین پر دیکھا اور میرے والد صاحب کو کال کی، ساتھ میں سب کا یہ بھی کہنا تھا کہ سکرین پر آنے کے لیے اس نے اپنا نام بھی تبدیل کیا ہے، چونکہ تعلیمی اسناد میں میرے والد نے میرا نام ناہید جہانگیر رکھا ہے جبکہ دادا ابو نے میرا نام الزبتھ رکھا تھا، سب کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ نام کو کیوں تبدیل کیا ہے۔
پی ٹی وی کے بعد میں نے ریڈیو پاکستان پشاور سے پشتو نیوز کاسٹنگ شروع کی، 2016 میں پی ٹی وی کے ریفرنس سے میں امریکا گئی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے سب کا ذہن اس بات کو ماننے کے لیے تیار تھا کہ اس فیلڈ میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ فیلڈ اچھی ہے۔
اس کے بعد میں نے ٹی این این میں کام شروع کیا جہاں میں نے تین چار سالوں میں صحافت سے متعلق وہ کچھ سیکھا جو اس سے پہلے دس سالوں میں بھی نہیں سیکھا تھا۔ یہاں مجھے مختلف ٹریننگز ملی جس نے مجھے مزید پالش کیا اور ٹی این این جوائن کرنے کے بعد میری شہرت میں بہت اضافہ ہوا کیونکہ یہاں میں نے فیس بک لائیو نیوز بھی شروع کی۔
میں جہاں جاتی ہوں وہاں لوگ مجھے پہچانتے ہیں کیونکہ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ٹی این این نے مجھے ایک پیلٹ فارم دیا جہاں میں نے میزبانی سے لے کر پروڈکشن تک سب کچھ سیکھا۔
قدم قدم پر لڑکیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص طور اس فیلڈ میں ہم ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جس میں پہلے ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ یہ نوکری لڑکیوں کے لئے ہے اور وہ لڑکوں کے لیے۔
جرنلزم ایک ایسی فیلڈ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس کو صرف مردوں کے لئے ہی بہتر مانتا ہے، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صحافت اور شوبز میں ان کو پہچان نہیں ہے، ٹی وی پر ہر آنے والے کو اداکار سمجھا جاتا ہے، ان پڑھ کیا میں نے بعض ایسے پڑھے لکھے ”جاہل” بھی دیکھے ہیں جو صحافت اور شوبز میں پہچان نہیں کر سکتے۔
مجھے میرے گھر والوں خاص طور میرے والد نے بہت سپورٹ کیا، جب گھر والے ساتھ ہوں تو انسان باہر لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ بھی ایک اہم مسئلہ جب سامنے آتا ہے وہ اپنے فیلڈ کے لوگوں سے ہوتا ہے، اگر کوئی سٹوری کر لی تو اپنے فیلڈ کے لوگ تنقید کر کے کہتے ہیں کہ ہیں تو تو صحافی ہے ہی نہیں، تمہیں تو کچھ آتا ہی نہیں ہے۔
صحافت کی فیلڈ کا سفر اتنا مختصر سفر نہیں ہے، نہ اپنا نام کمانے میں تھوڑا وقت لگتا ہے، نام اور کامیابی کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے، بہت محنت کرنے کے بعد میں آج اس مقام پر کھڑی ہوں۔
پی پی ایف کی طرف سے مجھے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، اس سے میری اور بھی حوصلہ افزائی ہوئی، انسان جتنی محنت کرتا ہے اتنا ہی اسے صلہ ملتا ہے۔
حال ہی میں صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں اسسٹنٹ میڈیا منیجر کے عہدے پر فائز ہوں، صحافت نے مجھے نام دیا عزت اور شہرت دی، میں لڑکیوں کو یہی مشورہ دوں گی کہ ہر فیلڈ میں لڑکیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان تمام مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر اس فیلڈ میں آنا چاہئے۔