بلاگز

‘ارے کچھ نہیں ہوتا بس گرم پانی پیا کریں’

سدرا آیان

یوں تو کورونا  نے دنیا بھر میں تباہی مچا کر رکھی ہے اور رواں سالوں میں یہ پہلی بار ہوا کہ لوگوں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا ۔ کچھ لوگ اس خوف میں ہیں کہ جلد وہ بھی اس موذی بیماری کے شکار ہوجائنگے تو کچھ اس بیماری کے شکار لوگ موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اور یہی حال اپنے ملک کا بھی کہ کچھ لوگ کرونا سے مر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو ڈر کھا گیا ہیں۔

ڈر تو اتنا ہے پاکستانی عوام میں کہ پوری قوم ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے لیکن احتیاط نامی چیز سے اتنا ہی چھڑتے ہیں جتنا کہ کرونا سے ڈرتے ہیں ۔ اچھا اس میں اب ایسے لوگ ہیں جو حال ہی میں کرونا کہ شکار ہیں یا تھے ۔ اتنی تکلیف جو سہہ چکے ہیں لیکن پھر بھی یہ کسی سے گلے ملنے یا ہاتھ ملانے سے نہیں کتراتے جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ابھی تک اس بیماری سے محفوظ ہیں اس لئے انکو کرونا سازش یا ڈرامہ لگتا ہے۔

چین میں وائرس کے خاتمے پر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومت کچھ نہیں کر رہی چائنا ہی کو دیکھ لیں سال بھر میں کرونا وائرس سے نمٹ گیا لیکن ہماری حکومت نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ۔ اچھا اب ان کو اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ چینی حکومت کے پاس نہ تو آلہ دن کا چراغ ہے اور نہ ہی کوئی جادوئی چھڑی  ۔ انکے پاس صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے باشعور عوام ۔ چین میں کرونا کو حکومت نے  ختم نہیں کیا بلکہ عوام نے خود احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس وائرس سے جان چھڑالی ۔

اب ہمارے ہاں کیا ہے کہ ہمارے لوگوں میں یہ صلاحیت ہے کہ کسی بھی وقت یہ لوگ استاد بن جاتے ہیں ،(نصیحت کرتے وقت)، کسی بھی وقت یہ وکیل بن جاتے ہیں (غلطی ہوتے ہوئے بھی اپنی یا کسی اپنے کا دفاع کرتے وقت) ، کسی بھی وقت یہ جج بھی بن جاتے ہیں ( کسی کے کردار کے فیصلے کرتے وقت) ،جرنلسٹ بھی بن جاتے ہیں (پولیٹکس  ،ملک کے برے حالات اور  حکومت کو نااہل قرار کرکے اس پر ایسے تبصرے کرنے لگتے ہیں جیسے فیلڈ ورک میں کافی تجربہء کار اور سنجیدہ ہیں )۔

(ارے کچھ نہیں ہوتا بس گرم پانی پیا کرے) ایسے مشورے بھی دیتے ہیں کیونکہ یہ کسی بھی وقت ڈاکٹر بننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔

بعض لوگوں کو بار بار ہاتھ دھونے ، گلے نہ ملنے یا ہاتھ ملانے سے منع کرو تو انکے اندر کا مسلمان جاگ جاتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کلمہ پڑھا ۔ کلمے سے شاید وائرس ایمان لے آئے لیکن وائرس ختم نہیں ہوتا ۔ ایسا ہے کہ قرآن پاک میں ہر بیماری کا علاج ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ اس  لئے دیا کیونکہ ان کو خدا نے دماغ جیسی نعمت سے نوازا ہے جسکو استعمال بھی کرنا ہے ۔ اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس لیے دی ہوئی ہے کہ اس کو انسان استعمال کرکے اپنی زندگی کے ہر موڑ میں اپنے مسائل سے نپٹ سکیں ۔

اب بھی اگر لوگوں کو اعتراض ہے کہ حکومت کچھ نہیں کررہی لوگ مر رہے ہیں تو  میں جرنلسٹ کمیونٹی سے درخواست ضرور کرونگی کہ  وہ یہ پیغام  حکومت تک پہنچائیں کہ حکومت عوام کے گھروں میں آکر انکے ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھلوائیں ، جب یہ گھروں سے نکلیں تب ان کو ماسک پہنائیں ، انکے ساتھ بیگز میں سینٹائزر لے کر پھرے اور انکے ہاتھوں پر لگائیں ۔ اگر سیڑھیاں چھڑتے  یا اترتے وقت انکے ہاتھ سیڑھیوں کے جنگلے سے ہٹائیں ۔ چھینک یا کھانسی آئے تو  انکے منہ پر ہاتھ کے بجائے ٹیشو یا رومال رکھ دیں ۔  ایسا کرنے سے شائد انکو لگے کہ ہاں حکومت نے ہمارے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا ورنہ انکے لیے لاک ڈاؤن فافذ کرنا ، ان کو گھروں میں رہنے کی تلقین کرنا ، ہیلتھ کیئر پلیننگز کرنا ، آنلائن سسٹم دینا ، کرونا سے بچاؤ کے مختلف کورسز یا  مختلف احتیاطی تدابیر دینا یہ سب تو انکو چاہیے ہی نہیں ۔

اپنے ملک کے عوام کی سوچ کے اس لیلول کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انکو اگر بغیر ضرورت کے ہسپتال جانے سے منع کریں تو  اور نازک حالات سمجھانے کی کوشش کریں انھی دنوں میں یہ بچے پیدا کرتے ہیں۔

ان کو اگر ان حالات میں تقریبات میں جانے سے منع کیا جائے تو یہ عوام لاک ڈاؤن ہی میں شادی رچا دیتے ہیں ۔

انکو اگر مارکیٹس جانے سے منع کریں تو منے کی چوسنی سے لیکر سال بھر کی شاپنگ انھیں یاد آجاتی ہے ۔ اگر ہاتھ یا گلے ملنے سے منع کریں تو انکو شرم محسوس ہوتی ہے کہ انکے اپنے آئنگے اور یہ انکو گلے نہیں لگائیں گے شرم پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے ، دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے ، دوسروں کی عزتیں اچھالنے میں نہیں آتی لیکن اگر انکی اور اپنی زندگی بچانے کی خاطر دور ہی سے سلام دعا کریں تو انکو شرم آتی ہے ۔

اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے  اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سوئے ہوئے دماغ کو جگائے ، اپنی بند آنکھوں سے پٹی اتار دیں ۔ جیسے قیامت کے دن ہر انسان نے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے بلکل  اسی طرح ملک میں آئے روز مرتے بچے ، بوڑھوں  کو یوں بچھڑتے دیکھ کر ان مشکل حالات کو بھی قیامت ہی سمجھ کر اپنا بوجھ خود اٹھائیں دوسروں پر ڈپنڈ کرنے کے بجائے دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی مدد آپ کریں اور اپنا خیال خود رکھیں ۔ احتیاطی تدابیر اپنا کر خود کی بھی حفاظت کریں اور دوسروں کی زندگی بھی بچانے کا اپنا فرض نبھائیں ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button