بلاگزخیبر پختونخوا

مزاحمت کی قوت

تحریر: مولانا خانزیب

 

مزاحمت کسی سوچ، نظریئے اور جبر سے انکار کا نام ہے، جبکہ بقول ڈاکٹر مبارک علی مزاحمتی رویہ کسی ریاستی جبر سے انکار کا نام یے ۔مزاحمتی روئیے اور تحریک سے وابستگی پر کبھی کبھی اسکی بھاری قیمت بهی ادا کرنا پڑتی یے جن میں جان کا چلے جانا اور مختلف مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا ہوتا یے ۔اسی طرح مزاحمت کبھی مسلح ہوتی ہے جسکا مقصد ایک نئے نظام کا قیام اور پرانے فرسودہ نظام کی کایا پلٹنا ہوتی ہے۔
مسلح مزاحمتی تحریک کی شکل تاریخ میں اکثر کسی ملک پر غاصب وقابض قوتوں کے خلاف ہوتی ہے یا اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں کو کسی بھی صورت بنیادی انسانی حقوق دینے پر راضی نہیں ہوتی تو پھر اسکے جبر کے خلاف عوامی روئیے تحریک میں بدل کر مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اسی طرح مزاحمتی تحریک کبھی سیاسی شکل میں بھی ہوتی ہے جنکا مقصد جمہوری طریقے سے پریشر ڈال کر عوامی حقوق کا حصول ہوتا ہے اور اس موجودہ نظام میں اصلاحات لانا ہدف ہوتا یے۔ مزاحمتی تحریک اور سیاست کو ہمیشہ تاریخ میں عوامی پذیرائی ملتی یے۔
مگر بدقسمتی سے مزاحمتی تحریکیں اکثر ناکامی سے دوچار ہوتی یے جبکہ کبھی کبھی کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتی ہے۔
مگر یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ ،مفاہمت جو کہ بظاہر بہت آسان کام ہوتا ہے کمزور لوگوں کو بہت جلد اپنی کامیابی کا یقین ہوجاتا ہے لیکن حقیقت ایسا ہے نہیں مفاہمت کے نتیجے میں کامیابی انتہائی عارضی اور کم فوائد پر مشتمل ہوتی یے جسکا ،ادراک، مفاہمت سے جڑے لوگوں کو بہت جلد ہوجاتا ہے مگر وقت اور طاقت انکے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
برصغیر میں ناکام مزاحمتی تحریکوں کی مثال ہندوستان میں ‘خلافت تحریک’ اور ‘ھندوستان چھوڑ دو’ جرت کی تحریکیں ہیں۔ایک قوم مختلف طبقاتی نظاموں، خطوں، مذاہب اور نسلوں پر مبنی ایک اجتماعی برادری ہوتی ہے جو ایک مخصوص جغرافیہ میں زمانوں سے گزر بسر کررہی ہوتی ہے جنکی اپنی تاریخ ثقافت اور اپنے گردوپیش کے معروضی حالات میں سیاسی قومی سیاسی کردار ہوتا ہے جس کو غالب طبقوں اور یہاں تک کہ ایک دوسرے سے معاشی، معاشرتی اور سیاسی امتیاز کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ امیراور غریب طبقے کے فرق کو کون مٹائے گا جب کہ دونوں ایک ہی قوم کا حصّہ ہیں، جب غریبوں پر ظلم کیا جائے گا اور ریاستی ادارے اور اس کے تسلط پسند طبقے نہ تو کسی کی آواز سنیں اور نہ ہی ظلم کو ظلم کہیں۔
ہمیں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم کس سے اور کتنی آزادی حاصل کی ہے؟ غریب اور بے سہارا طبقوں کی زندگیاں تو انگریز کے چلے جانے کے بعد بھی نہیں بدلی ہیں۔ تو اب کون سی آزادی اور کس چیز کی آزادی؟

وہ سارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جو پسماندہ، مظلوم اور غریب لوگوں کو آواز اُٹھا نے کا ذریعہ ہے، اپنی مزاحمت کی طاقت کو مستحکم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے کامیابی کے ساتھ ایک ایسی ورچوئل سپیس کو تشکیل دے دیا ہے جہاں قومی مسائل پر مختلف آوازیں اور ان کا آزادانہ اظہار ممکن ہو سکا ہے، سوشل میڈیا موجودہ دور میں اظہار رائے کے ذریعے مزاحمت کی ایک علامت ہے اور قوم کے ان باشعور طبقے کے ھاتھ میں قومی حقوق کے حوالے سے ایک ایسی طاقت ہے جوہر جبر اور استبداد کو للکارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہر جبر کو چیلنج کرکے موجودہ وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قومی بیداری کے حوالے سے حوصلہ افزا کردار ادا کیا ہے جو کسی بھی طرح کسی انقلاب سے کم نہیں۔

مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کیلئے اکثر ریاستی وسائل کو بڑے بے رحمی سے استعمال کیا جاتا ہے۔مگر مزاحمتی تحریکوں سے وابستہ انقلابی ان مشکلات ومصائب کو اپنے نظرئے سے وفاداری کی خاطر جھیلتے ہیں۔
ان انقلابیوں میں ارجنٹینا کے انقلابی ،چے گوویرا، یا ہندوستان میں بھگت سنگھ کا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہے اسی طرح سبھاش چندر بوس، خان عبدالغفار خان عرف باچا خان، حاجی صاحب ترنگزئی بابا، کاکا جی صنوبر حسین اور بہت سے نام تاریخ میں زندہ ہیں۔
ھندوستان کی تاریخ فرنگی کے دور میں مزاحمتی تحریکوں اور اس سے وابستہ کرداروں سے بھری ہے۔ اسی طرح ،مارٹن لوتھر کی سولویں صدی میں کیتھولک ، فرقے اور چرچ کے تسلط کے خلاف پروٹسٹنٹ مزاحمتی تحریک تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح 1789میں انقلاب فرانس میں کسانوں کی مزاحمتی تحریک بھی قابل ذکر ہے مگر یہ بھی تعجب خیز ہے کہ ،مارٹن لوتھر کنگ نے انقلاب کے بعد اس وقت کے حکومت کو اسی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
اسی طرح انقلاب فرانس کے بعد بورژوا طبقے نے خود اپنے تحریک سے وابستہ کسانوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ انکے حکومت سے مزید مطالبات اور حقوقِ مانگنے والے نہ رہے۔ مزاحمت قومی تحریکوں کو جنم دیتا ہے اور قومی تحریکیں قوم کی حقیقی آواز ہوتی ہے۔
کچھ مزاحمتی تحریکیں فرد اور اس کے ذاتی مفادات تک محدود رہتی ہیں۔ ان ہی میں سے چند ایسی تحریکیں بھی رہی ہیں کہ جو ماضی کے گمشدہ سنہری دور کو واپس لانا چاہتی تھیں۔ لہٰذا مزاحمتی تحریکوں میں ہمیں کئی مقاصد پنہاں نظر آتے ہیں مگر ایک چیز جو ان سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ سماج کو تبدیل کیا جائے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک نئے اور توانا نظام کو نافذ کیا جائے۔
مزاحمتی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں ، ایک وہ جو مسلح جدوجہد اور تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری وہ جو جمہوری اور دستوری طریقے سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کرتی ہے۔

مسلح مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب گفت و شنید کے تمام دروازے بند کردیے جائیں اور ریاست کا جبر اس قدر بڑھ جائے کہ مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ رہے۔ مگر موجودہ وقت میں جمہوری نظام کی برکت سے پرامن اور عدم تشدد کے فکر کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے جلسے جلوس انتھائی مؤثر ہتھیار بن گئے ہیں جن سے ہر وقت محلات کے باسی خوفزدہ ہوتے ہیں یہ قومی مزاحمت قومی شعور کی برکت سے ہوتی ہے اس لئے سماجی شعور کیساتھ سیاسی شعور کو پنپنا اور عام کرنا نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

کیا محکوم غدار ہیں؟ کیا تاریخ صرف وہ ہے جو جابر حاکم نے مورخ کی گردن میں طوق ڈال کر لکھوائی ہے؟ کیا مظلوم کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ سچ کا درس دینے والے لوگ یہ جان لیں کہ سچ ایک ایسی طاقت ہے جو تاریخ کے صفحے پھاڑ کر چنگھاڑتا دکھائی دے گا جنکو ٹھکرانا کسی کی بس کی بات نہیں جب جھوٹ گھڑے جاتے ہیں اور سچ کو مسخ کیا جاتا ہے تو سچ ‘شکل’ میں تاریخ کے صفحات پر اپنے نشان چھوڑ جاتی ہیں جن کو سطروں کے درمیان جھانکتا ہوا ہم دیکھ سکتے ہیں۔
کیا مزاحمت کے عروج پر پائی جانے والی قومیں جو آئین کی سالمیت اور ملک کی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے نکلتی ہیں غدار کہلاتی ہیں؟ جب ان باتوں کا جواب اثبات میں ہے کہ یقینا یہ مسائل ہیں اور حقائق وہ نہیں جو دکھائے جاتے ہیں تو پھر ہمیں اس کو سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا،زندگی جینے کیلئے حقوق دینے ہونگے نہ کہ حق کی آواز کو کچلا جائے۔

 

نوٹ: ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button