بلاگزفاٹا انضمامقبائلی اضلاع

سابقہ فاٹا کے طلبہ ، آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے

تحریر: محمد بلال یاسر

سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے ایف ایس سی پاس طلبا جن کی عمریں 17سے18سال کے درمیان ہوں گے کو اس موجودہ حکومت نے اسلام آباد کی اس سخت سردی میں اپنی محنت کا صلہ لینے کیلئے احتجاجی دھرنا کرنے پر مجبور کردیا ۔

یاد رہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے سابقہ فاٹا اور بلوچستان کی 265 سے زائد سیٹس ختم کی ہے۔طلبا نے دن رات ایک کرکے محنت کی اورHEC ٹیسٹ پاس کیااور جب میرٹ لسٹ میں نام آگئے تب پتہ چلا کہ بغیر کسی وجہ کےPEC نے فیصلہ کیا ہے کہ 265 کی بجائے صرف 29طلبا کو اس سال سلیکٹ کیا جائے گا۔جس پر طلبا گزشتہ کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی اور تعلیم دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

سابقہ فاٹا کے ساتھ کئی دہائیوں سے نا انصافی کی جارہی ہے۔فاٹا میں مسلسل دہشت گردی کو مسلط کیا جارہا ہے۔فاٹا کے علاقہ مکینوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ہزاروں لوگ شہید ہوئے ، لاکھوں لوگ گم ہوئے ہیں۔اس وقت 15 لاکھ لوگ گم ہیں اور 2 لاکھ 22 ہزار گھروں کو مسمار کیا گیا ہے ۔آج بھی دو لاکھ لوگ کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اورجو وعدے کئے تھے مکمل نہیں کئے گئے۔ مگر ان قربانیوں اور تکالیف کے باوجود بھی فاٹا کے عوام کو 150 میڈیکل سیٹس بھی نہیں دی جارہی ہیں سابقہ فاٹا کا گزشتہ 19 سال میں 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔فاٹا کے طلبا کو اسکالر شپ دی جائے معدنیات سے بھرے علاقے کو سائیڈ کیا جارہا ہے۔ پی ایم سی کی پالیسی غلط ہے ،ہم چاہتے سب میڈیکل کالجز کا ایک ہی پیمانہ ہونا چاہئے۔

بلوچستان اور فاٹا جو ملک دشمن قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا روزاول سے مرکز نگاہ رہے ہیں جہاں آج بھی آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے واقعات ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان جنگ زدہ علاقوں کے طلبا کے لئے پاکستان کے میڈکل کالجوں میں مختص کوٹے کو اپنی پرانی حالت میں بحال کیا جائے تا کہ ان سب سے زیادہ پسماندہ اور دہشتگردی کی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے والے علاقوں کے نونہالان پڑھ لکھ کر اور ڈاکٹرز بن کر ان تباہ حال علاقوں کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں اور یہ علاقے قومی دھارے میں شامل ہوکر ملک پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار اد کر سکیں۔پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر طلبا نے احتجاجی دھرنا دیا ہے اورپی ایم سی کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔

بلوچستان اور فاٹا کے طلبا کے ساتھ نا انصافی کی جارہی ہے۔ ان علاقوں کو میڈیکل کی کم سیٹیں دی گئی ہیں 265 طلبا کو بحال کیا جائے،اسٹیٹ اور اسٹیٹ کے اداروں کی پالیسی یہ ہے کہ غریب والدین کے بچے ڈاکٹر نہ بنیں پی ایم سی کی ناروا پالیسی ہے۔اسلام آباد میں ایف ایس سی پاس سٹوڈنٹس جن کی عمریں لگ بھگ 16,17 سال ہوگی، اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں لیکن نہ تو حکومت ٹس سے مس ہو رہی ہے اور نہ ہی ان علاقوں سے منتخب ہونے والے نمائندگان ان کے اس مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

حکومت ہوش کے ناخن لیں حکومت نہ صرف اپنے وعدے سے مکر گئی ہے بلکہ پہلے سے موجود 334سیٹوں کا کوٹہ کم کرکے 167کردیا ہے،حکومت نے سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے اسکالر شپس120سے کم کرکے 14کردیئے ہیں۔حکومتی زیادتی کیخلاف قبائلی اضلاع کے طلبہ وطالبات سراپا احتجاج ہیں حکومت فی الفور قبائلی طلبہ کے لئے میڈیکل کالجوں میں مقررکردہ کوٹہ نہ صرف بحال کریں بلکہ انضمام کے وقت کئے ہوئے وعدوں پربھی عمل درآمدکرے۔ سابقہ قبائلی اضلاع کے عوام ماضی میں حکومتی عدم توجہی کے باعث صحت،تعلیم اور دیگر زندگی کی سہولیات سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ‘آج تم یاد بے حساب آئے’

انضمام سے قبل حکومت کا وعدہ تھا کہ ملک بھر کی میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں سمیت دیگر شعبوں میں کوٹہ دس سال کے لئے ڈبل کیاجائیگا مگر عملدرآمد دور دور تک ممکن نظر نہیں آرہا ۔

معلوم نہیں حکومت کیا چاہتی ہے ، کیا حکومت چاہتی ہے کہ قبائلی اضلاع میں پھر سے ایسے حالات پیدا کیے جائیں جہاں لوگ مجبور ہوکر سڑکوں پر نکل آئے کیوں؟ وہ اس وجہ سے کہ جہاں پر جنگ گزری ہو، لوگوں نے دکھ اور تکلیف دیکھے ہوں اور بدستور محرومیوں کا شکار ہوں وہاں جب احتجاج ہوگا تو پھر سے گزرے ہوئے حالات کا ذکر ہوگا اور جب ایسی صورتحال پیش آئے گی تو اس میں فائدے کی بجائے سارا نقصان حکومت کا ہی ہوگا۔لہذا حکومت ہوش کے ناخن لیں اور فوری طو رپر ان طلبہ کو پی ایم سی مطلوبہ کوٹہ سیٹس پر داخلے دیں تاکہ قبائلی بچے بھی ڈاکٹر بن کر اپنے علاقے کے زخموں کا مداوا کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button