بلاگز

‘قہوہ پیو قہوہ! کرونا کا یہی علاج ہے’

رضیہ محسود

کرونا وائرس نے عالمی وباء کی صورت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں اب تک 25 ہزار سے زائد لوگ کورونا کا شکار بن کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وباء خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور اب تک 11 افراد اس وائرس سے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

کرونا وائرس جہاں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے وہاں لوگ بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اب تو بات لاک ڈاؤن تک بھی جا پہنچی ہے بلکہ اس وقت جزوی طور پر لاک ڈاؤن شروع بھی ہے۔

جب یہ وباء سامنے آئی تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا اور اب بھی بہت سے لوگ اس وباء کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور اسے ایک سازش یا 50 بلین ڈالر سے جوڑ رہے ہیں۔ اکثر لوگ اس وباء کو اس لئے بھی 50 بلین ڈالر سے جوڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ڈالر کے عوض پختونوں کو دہشت گردی کے نام پر تباہ و برباد کیا گیا، لوگوں کو مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا اور ان کے گھر بار مسمار کیے جس کا خمیازہ وہ لوگ اب تک بھگت رہے ہیں، لوگوں کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا اور جب واپس اپنے علاقے گئے تو لینڈ مائنز سے معذور ہونا شروع ہو گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا حکومت پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔

کرونا وائرس کی علامات اور عام فلو کی علامات تقریباً ایک جیسی ہیں اور سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر بار بار کرونا کے متعلق ہی خبریں چل رہی ہیں، لوگوں کو آگاہی کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی مفلوج اور وہمی بنا دیا گیا ہے، کوئی معمولی چھینکتا یا پھر موسمی بخار میں بھی مبتلا ہوتا ہے تو وہ خود کو کرونا کا مریض سمجھ بیٹھتا ہے اور اتنا خوفزدہ کہ تقریباً مرنے کے قریب ہو جاتا ہے، یہی خوف کرونا وائرس کا مرض لاحق ہونے سے زیادہ خطرناک ہے۔

آج کل موسم بھی بدل رہا ہے اور کھبی بارش کی وجہ سے بہت ٹھنڈا تو کھبی بہت گرم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جسمانی درجہ حرارت اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتا اور موسمی بخار اور کھانسی ہو جاتی ہے جو اس سے پہلے بھی ہوتی رہتی تھی مگر اب جب سے یہ عالمی وباء کرونا آیا ہے اور چین اور اٹلی میں لوگوں کی اموات کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہیں تو لوگوں میں بہت زیادہ خوف دیکھنے کو ملا ہے۔

مگر قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگ، جن کو نیٹ کی سہولت میسر نہیں، اس کرونا کو ایک افواہ سمجھ رہے ہیں اور اگر ان کو بتایا بھی جائے اس بارے تو یہ بات ان کے ذہنوں پر اثرانداز نہیں ہوتیں جب تک ان کو اس وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات نہ دکھائی جائیں۔

پہلے تو اس وباء کو لوگوں نے مذاق بنایا ہوا تھا کیونکہ جب پہلی بار حکومت پاکستان نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تو کچھ طلباء یہ نعرہ لگا رہے تھے کہ کرونا زندہ باد، اب چونکہ پاکستان میں کرونا کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور صوبائی اسمبلی اور وزیروں کے بھی کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے تو لوگوں نے اس وائرس کو سنجیدگی سے لیا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے لگے۔

اس وباء نے لوگوں کو وہمی بنا دیا ہے اور خوفزدہ اس قدر کہ کسی بھی افواہ پر یہ بہت آسانی سے سوچے سمجھے بغیر یقین کر لیتے ہیں، اس کی مثال میں ایک بچے کے پیدا ہونے والے بیان اور اس کے قہوہ پینے اور پھر موت کی خبر کا گردش کرنا ہے کہ ایک بچہ پیدا ہوا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آ رہا ہے آپ لوگ قہوہ استعمال کرو اور چینی کم ڈالو، اللہ تعالیٰ ناراض ہیں وہ خوش ہو جائیں گے اور نوافل پڑھو وغیرہ۔

کوئی پوسٹ کر رہا ہے تو کوئی ویڈیو پیغام جاری کر رہا ہے اور پیغام جاری کرنے والے اور ہوسٹ کرنے والے سب اپنے بیان میں پورے یقین کے ساتھ اس بیان کے سچ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ بچہ ٹانک کے ہسپتال میں پیدا ہوا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ وزیرستان میں، اور تو اور ڈیر اسماعیل خان کی ایک عورت باقاعدہ ویڈیو میں یہ دعویٰ کرتی نظر آرہی ہے کہ میرے رشتے دار کا ڈیرہ اسماعیل خان کے زنانہ ہسپتال میں بچہ پیدا ہوا، ایک گھنٹہ زندہ رہا اور کہہ رہا تھا کہ قہوہ پیو، کرونا کا علاج یہی ہے، یہ بیماری ختم ہو جائے گی۔

یہ بات تک سننے میں آئی کہ پہاڑپور کی سائیڈ پر باقاعدہ مساجد میں اعلانات تک ہوئے اور معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان پڑھ لوگ تو دور کی بات تعلیم یافتہ اور کافی باشعور لوگ بھی اس افواہ کے زیر اثر آگئے ہیں اور کافی مقدار میں قہوہ بنا کر پی رہے ہیں۔

افسوس تو بہت ہوا کہ ہم وہ قوم ہیں جن سے کوئی کہے کہ ایک کتا آپ کا کان لے جا رہا ہے تو اپنی کان دیکھنے کے بجائے اس کتے کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔

سوچنے کی بات نہیں یہ تو ماننے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کھبی بھی کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے اور یہ وباء بھی عذاب کی ایک خطرناک صورت ہے چاہے یہ انسانوں کی بنائی ہوئی ایک سازش ہے یا کچھ اور مگر اس وائرس سے بے پناہ تباہی ہوئی ہے اور عذاب کی صورت میں ہم پر نازل ہے تو ایسے حالات میں اگر اللہ تعالیٰ کوئی معجزہ کرتا بھی ہے یا لوگوں کو کوئی اشارہ دیتا بھی ہے تو کیا وہ قہوہ یا سبز چائے کا کہے گا؟ کیا ہم لوگ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کو بھول گئے؟

ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ دجال جو ایک فتنہ ہے، سب کو معلوم ہے کہ قیامت سے پہلے وہ آئے گا اور لوگوں کو، اہل اسلام کو گمراہ کرے گا اور یہاں تک وہ کرے گا آپ کو گمراہ کرنے کے لئے کہ وہ آپ کے عزیزوں کی لاشوں کو زندہ کر کے کہے گا کہ اب تو مجھے مان لو تو جو پختہ ایمان والے ہوں گے وہ اس کی اس چال بازی میں نہیں آئیں گے اور جن کا ایمان کمزور ہو گا وہ فوراً اس کے آگے سجدہ کرکے گمراہ ہو جائیں گے تو اس چھوٹے بچے کی پیدائش کی افواہ اور لوگوں کے ردعمل کو دیکھ کر مجھے خوف سا لگنے لگا ہے کہ جب ایک بے بنیاد افواہ کی تصدیق کئے بغیر ہم دھڑا دھڑ سبز چائے اور قہوہ پینے لگے تو دجال جب ہمارے عزیزوں کے مردہ جسموں کو زندہ کرے گا تو ہم تو فوراً ہی سجدہ ریز ہو جائیں گے کہ یہ سوچے بغیر کہ اللہ تعالیٰ نے اس دجال کے فتنے کے بارے میں ہمیں پہلے ہی آگاہ کیا تھا۔

اب تو ان حالات کو دیکھ کر میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہمارے لوگوں میں تعلیم کی کمی ہے کیونکہ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اس بچے والی جھوٹی خبر پر یقین اور عمل کرتے پایا۔

میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے اللہ! آپ ہماری مدد فرما، ہماری خطاؤں اور گناہوں کو معاف فرما، ہماری عقل پر پڑے پردوں کو دور کر، ہمیں عقل و شعور کی دولت سے مالا مال کر، اے میرے پیارے رب! آپ ہی ظاہر و پوشیدہ چیزوں پر قدرت رکھتے ہیں، آپ ہیمں اس آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رکھ اور ہمیں گمراہی سے بچانے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو کر! آمین یا رب العالمین

نوٹ: ٹی این این کا اس مضمون میں دی جانے والی آراء سے اتفاق ضروری نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button