لائف سٹائل

موسمیاتی تبدیلی اور حکومتی بے حسی، باجوڑ پلانٹس نرسری چار سالوں سے ویران

شاہ خالد شاہ جی

ضلع باجوڑ میں نان ٹمبر فارسٹ پراڈکس (این ۔ٹی۔ ایف۔ پی) پودہ جات کی نرسری پہلے شہتوت، سفیدار اور  دیگر ادویاتی پودوں کی وجہ سے سرسبز و شاداب تھی لیکن پچھلے چار سالوں سے ویران پڑی ہے۔

پودوں کی بجائے اس میں ہرطرف جڑی بوٹیاں اگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف علاقے کے لوگ مفت پودوں کی  سہولت سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کی نفی کرتی ہے۔

نوراللہ خان تحصیل خار کے تاریخی گاؤں لاشوڑہ کے رہائشی ہے۔ ان کی نہر کے کنارے دس کنال زمیں ہیں جس کے اردگرد انہوں نے شہتوت، سفیدار، لاچی، ایلنتس (بیکیانڑا)  کے پودے لگائے ہیں جو اب بڑے درخت بن گئے ہیں. انہوں نے کہا کہ” اس میں شہتوت اور سفیدار کے پودے اس نے این ٹی ایف پی کi نرسری سے آٹھ  سال پہلے لیے تھے جو اس کو شناختی کارڈ کاپی پر مفت دیے گئے تھے”۔

نوراللہ نے بتایا کہ یہ نرسری ان کے گاؤں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی وجہ سے ان کو پودوں کے حصول میں بہت آسانی تھی۔ وہ ہر سال موسم بہار میں یہاں سے پودے لے جاتے تھے۔ اس نرسری سے گاؤں کے دوسرے لوگ بھی پودے لاتے تھے  اور اس مفت سہولت سے فائدہ اٹھارہے تھے۔

انہوں نے نرسری میں چند سالوں سے پودوں کے نہ اگانے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ  وہ اس مفت سہولت سے محروم ہے کیونکہ وہ ایک مزدور آدمی ہے اس لئے پرائیویٹ نرسری سے  پودے نہیں خرید سکتا۔

محکمہ این ٹی ایف پی باجوڑ کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق  اس نرسری کی بنیاد  1985 ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کا کل رقبہ آٹھ کنال ہے جس میں بڑے پیمانے پر ہائبرڈ (فارمی) شہتوت کے پودے اگائے جاتے تھے۔ اس میں چھ مستقل سٹاف کے ساتھ ساتھ روانہ اجرت کی بنیاد پر بھی سیزن میں لوگوں کو کام پر رکھا جاتا تھا۔

باجوڑ میں یہ پہلی نرسری ہونے کی وجہ سے یہاں پر شہتوت کے پودوں کا بڑا ذخیرہ تیار ہوتا تھا جس کی بنیاد پر یہاں نرسری فارم میں ریشم پیدا کرنے والے کیڑوں کو بھی پالا جاتا تھا اور زمینداروں کو بھی ریشمی کیڑوں کی نسل  مفت دی جاتی تھی جس سے  زمینداروں کو گھر پر روزگار کے مواقعے میسر آتے تھے۔

اس کے علاوہ اس فارم میں شہد کی مکھیوں کے بکس اور مشروم کی تخم بھی تیار کی جاتی تھی  اور پھر اس میں دلچسپی رکھنے والے زمینداروں میں ہر سال تقسیم کرتے تھے۔  اس نرسری فارم میں سالانہ دو لاکھ سے لیکر چار لاکھ تک پودا جات اگائے جاتے تھے جو باجوڑ کی تمام آٹھ تحصیلوں کے لوگوں میں مفت تقسیم کئے جاتے تھے۔

محکمہ نان ٹمبر فارسٹ پراڈکس باجوڑ کے ایک اہلکار گل بادشاہ نے نرسری  بندش  کے حوالے سے کہا کہ” جب سے قبائلی اضلاع  کا صوبہ خیبر پختونخوا  کے ساتھ انضمام ہوا ہے اسی دن سے  ہمیں فنڈ نہیں ملا جس کی وجہ سے نرسری میں پودوں کے اگانے اور دیگر  پراجیکٹس کا کام بند  ہے”۔

ان کے بقول انہوں نے کئی بار اپنے حکام بالا سے فنڈ کے بارے میں خط و کتابت کی ہے لیکن  ان کا یہی جواب ہے کہ ان کے پاس بھی فنڈز نہیں ہے اور جب ان کو  فنڈز ریلیز ہو گی تو تمام قبائلی اضلاع بشمول باجوڑ کو بھی فنڈز جاری کرینگے۔

صلاح الدین  عنایت کلے کے گاؤں بادی سمور کا رہائشی ہے اس کو چار  سال پہلے  این ٹی ایف  پی کے نرسری سٹاف نے مشروم تخم  اور دیکھ بال کی تربیت  دی تھی۔ مشروم کی تخم کے ساتھ   مشروم  کے بیگز رکھنے کے لئے سٹینڈز بھی دئیے تھے۔

انہوں نے اس بارے میں اپنے تجربات ہمارے ساتھ شریک کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت اچھا پروگرام  تھا جو انہوں نے شروع کیا تھا لیکن ہم نے پہلی بار مشروم  کی کاشت کا تجربہ کیا تھا  جس کی وجہ سے  توقعات کے مطابق آمدن نہیں ہوئی تھی لیکن اب مشروم کی تخم ریزی اور اس کی دیکھ بال میں کافی تجربہ حاصل ہوا ہے.

” مشروم کے لئے درکار درجہ حرارت کا پتہ چلا اور اس کے تخم تیار کرنے اور اس کو پلاسٹک کے بیگز میں ڈالنے کا طریقہ بھی سیکھا لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مشروم  کاشت کرنے کا  پروگرام نرسری والوں نے جاری نہیں رکھا جس کی وجہ سے  ہمارا تجربہ اب ہمارے لئے کار آمد نہیں ہے۔ ”

صلا الدین نے کہا کہ  میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ نرسری کو ایک بار پھر جدید طریقے سے فعال کیا جائے اور پودوں اور مشروم کے تخم کے ساتھ ساتھ نئے نئے روزگار کے مواقعے اس میں پیدا کیے جائے تاکہ علاقے کے لوگ اس سے بھر پورے طریقے سے فائدہ اٹھاسکیں۔

باجوڑ کے نوجوان ماہر ماحولیات نعمت اللہ  نے این ٹی ایف  پی نرسری بندش کو  حکومتی  بے حسی قرار دیا  اور کہا کہ  یہ موسمیاتی تبدیلی کے تدارک  کے لئے حکومتی دعوؤں  کی نفی ہے۔ ان کے بقول  پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔دیگر مہنگے اقدامات کرنا پاکستان کے لئے ممکن نہیں اس لئے  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے واحد  سستا حل زیادہ سے زیادہ مقدار میں پودے  لگانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ  "باجوڑ  خار کا درجہ حرارت  پہلے  34 ڈگری سنٹی گریڈ سے  اوپر نہیں جاتا تھا لیکن اب یہ 40  اور 41 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ  جاتا ہے جو  تشویشناک بات ہے۔ درجہ حرارت کو کم سطح پر رکھنا   اور موسم  کے خوشگوار ہونے میں درخت  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

نعمت اللہ نے تجویز دی کہ حکومت اس نرسری کو جلد از جلد دوبارہ فعال کرنے کے ساتھ باجوڑ میں تحصیلوں کی سطح پر نئے نرسریاں قائم کی جائے کیونکہ باجوڑ میں بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے  انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں اور فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

گل بادشاہ نے مزید کہا کہ ایک طرف ان کے پاس  فنڈز  دستیاب نہیں تو دوسری طرف نرسری میں سٹاف  کی بھی کمی ہے ۔ موجودہ وقت میں صرف ایک چوکیدار ہے جبکہ  باقی سٹاف ریٹائرڈ ہو چکا ہے جبکہ نئے سٹاف کی تقرری  ابھی تک نہیں ہوئی۔  تاہم ان کو امید ہے کہ ضم  اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے لئے نئی حکومت فنڈز جاری کریگی اور یہ تمام مسائل حل ہونگے۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button