گلا آفریدی
ضلع خیبر کے علاقے شاہ کس میں روز بروز کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہر کوئی سرمایہ کاری کے لیے کارخانے بنانے میں پیسہ خرچ کر رہے ہیں لیکن کسی کو ماحول کی پروا نہیں ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
کارخانوں سے اگر ایک طرف آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب بچوں میں بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ ایک رہائشی علاقہ ہے، قانونی طور پر یہاں کارخانوں کی اجازت نہیں ہے اس کے باوجود دن بہ دن فیکٹریز بننے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کارخانوں مارکیٹ میں کھڑے ہو جائیں تو گاڑیوں کا دھواں، کارخانوں کا زہریلہ دھواں اور بے تحاشا شور سے دماغ پھٹ جاتا ہے۔
کارخانوں کا زہریلا پانی پورے علاقے میں ادھر ادھر پھیلا ہوا ہے جہاں بچے کھیلتے ہیں جس سے ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ کارخانوں سے تیز تیز آوازیں جو میشینوں سے آ رہی ہوتی ہے وہ بھی صحت کو بہت بری طرح متاثر کر رہی ہے اور صوتی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔
ایک عرصہ پہلے یہاں ٹیشو پیپر کے فیکٹری میں آگ لگ گئ تھی جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو آنکھوں میں تکلیف ہو چکی تھی یہاں کے رہنے والے لوگ غریب طبقے کے ہیں ان کے لیے علاج کرنا بھی مشکل تھا، پاس حیات آباد ٹاؤن میں بھی لوگوں کو یہی شکایت ہوئی تھی۔
ان کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور زہریلے پانی سے لوگوں کی صحت کو نقصان سے بچانے کے لیے اہم اقدامات ہونے چاہیۓ ورنہ بیماریوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس اڑتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے جو دوسرے علاقوں سے پرندے آتے تھے اب وہ بھی یہاں کا رخ نہیں کرتے۔ یہاں درختوں کی بھی بہت کمی ہے اس وجہ سے آب و ہوا خراب ہوتی جا رہی ہے.یہاں پر ہر قسم کے کارخانے ہیں پلاسٹک کے تو بہت زیادہ ہیں جو صحت کےلیے بہت مضر ہے.یہاں ہیروئن کے بھی کافی کارخانے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں نشے کی لت اور منشیات کا کاروبار بڑھ رہا ہے غریب طبقے کے لوگوں میں بھی نشے کی عادت بڑھ چکی ہے۔ .
چند مہینے پہلے ایک لڑکا اور لڑکی گاڑی میں آئے تھے اور لوگوں سے آئس نشے کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ یہ کہاں سے ملے گا پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام آباد سے آئے ہوئے ہیں آئس نشے کی تلاش میں۔
یہ ٹھیک ہے کہ کارخانے روزگار کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن یہاں جتنے بھی کارخانے ہیں زیادہ ترپنجاب اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کے ہیں اور مقامی افراد کو صرف ان کارخانوں میں اجرت دی جاتی ہے۔ ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے لیکن تنخواہ بہت کم دی جاتی ہے سات بجے سے جب ان کا کام شروع ہوتا ہے تو سات بجے بند ہوتا ہے مسلسل بارہ گھنٹے یہ کام کرتے ہیں جو قانونی طور پر نو گھنٹے ہونا چاہیے اور تو اور اتوار کو بھی ان کی چھٹی نہیں ہوتی، صرف پندرہ ہزار ان کو مہینے کے دیئے جاتے ہے جو ان کے ساتھ ظلم ہے کیونکہ کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور زہریلے پانی سے ان کے صحت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان مزدوروں کو بیماری کی چھٹی بھی نہیں دی جاتی لیکن اگر کوئی ایک دن کے لیے بھی بیمار پڑ جائے تواس کی تنخواہ سے کٹوتی کی جاتی ہے. ان میں جو باہر کے منیجر اور دوسرے افسر ہوتے ہیں ان کی تنخواہ ایک لاکھ تک بتائی جاتی ہے جب کہ یہاں کےغریب لوگ اپنی تنخواہ سے دوائی بھی پوری نہیں کر سکتے۔ ان کارخانوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے جو کمانے کی غرض سے اپنی زندگی کا اہم وقت چند روپوں کے لیے ضائع کرتے ہیں جو وقت تعلیم کے لیے ہوتا ہے وہ غربت کی وجہ سے یہاں ان کارخانوں میں مزدوری کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
کارخانے ماحول کو دونوں طرف سے خراب کر رہے ہیں ایک طرف آلودگی اور بیماری میں اضافہ کررہی ہے تو دوسری طرف بچوں کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑھ رہا ہے مہنگائی کی وجہ سے بچے بڑے یہاں کام کرنے پہ مجبور ہیں۔
یہاں فیکٹریز بنانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ قبائلی ضلع میں ہے جس کو بجلی فری فراہم کی جاتی ہے تو تقریبأ ساری بجلی یہی سے فری میں لی جاری ہے جو یہاں کے عوام کا حق ہے اور حیات آباد ٹاؤن بھی یہاں سے جڑا ہوا ہے تو واپڈا کے افسروں اورملازمین کی مدد سے بجلی چوری کی جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کارخانوں میں غریب لوگوں کو تنخواہ مل رہی ہے لیکن ان کارخانوں سے آب و ہوا اور زمینی نقصانات کا بہت خدشہ ہے جس کی روک تھام کے لیے اقدامات بہت ضروری ہے کیونکہ ہم چند ہزار روپوں کی خاطر اپنی جانوں اور آئندہ نسل کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔