‘نئے پاکستان میں مجھ سے ٹرانسپورٹ چھن گئی”
خالدہ نیاز
تبدیلی سرکار کی حکومت میں ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب ایک روٹی 50 روپے میں بکی۔ میری ایک جاننے والی بتاتی ہیں کہ ایک دن انہوں نے پشاور میں 10 روپے والی ایک روٹی 50 روپے میں خریدی جبکہ کچھ لوگ یونہی بھوکے پیٹ گھر چلے گئے۔
یہ اس دن کی بات ہے جب پشاور سمیت پورے خیبر پختونخوا میں نانبائیوں نے ہڑتال کر رکھی تھی، آٹے کا بھی بحران پیدا ہو یا شاید کر دیا گیا تھا، ہر کوئی روٹی کے پیچھے بھاگ رہا تھا، ہمیں بھی بھوک ستا رہی تھی کیونکہ روٹی کھائے بغیر کم بخت بھوک کہاں مٹتی ہے۔ میری دوست نے مجھے کہا چلو خالدہ آج کچھ نیا کھا لیتے ہیں مگر میں نے کہا نہیں جب تک روٹی نہ کھاؤں بھوک نہیں مٹے گی۔
ہوا کچھ یوں کہ چند دن پہلے خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں آٹے کا بحران پیدا ہوا، یا جیسا کہ میں پہلے کہہ چکی کہ پیدا کیا گیا، جس کے بعد یا شاید اسی دوران خیبر پختونخوا کے نان بائیوں نے روٹی کے وزن میں کمی یا قیمت میں اضافے جیسے مطالبات لے کر احتجاج کے طور پر ہڑتال کر دی اور تندور بند کئے، بس پھر کیا تھا سب کو روٹی کی یاد ستانے لگی حالانکہ بلیک میں بھی روٹیاں فروخت ہونے لگی تھیں۔
یہ ہے تبدیلی سرکار کا نیا پاکستان جس میں عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے لگے ہیں، ہر کوئی پریشان حال اور ذہنی طور پر بیمار ہے کہ آخر کرے تو کیا کرے؟ بچوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، ان کا علاج کروائے یا پھر ان کے سکول کی فیسیں بھرے؟
شروع میں، میں بھی موجودہ وزیراعظم صاحب کی بہت بڑی فین تھی اور باقی لوگوں کی طرح میں نے بھی ان سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ چلو بھئی اب تو پاکستان کا مستقبل بدلنے والا ہے کیونکہ خان صاحب نے ہمیشہ نئے پاکستان کا نعرہ لگایا، ہمیشہ سے کہتے آرہے ہیں کہ غریب عوام کو سہولیات دیں گے، ان کی زندگی کو آسان بنائیں گے لیکن جب سے ان کی حکومت آئی ہے ساتھ مہنگائی کا ایک طوفان لے کر آئی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کی طرح میری امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں کیونکہ آئے روز مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ملک کا نچلا طبقہ پستا چلا جا رہا ہے، ان کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ میں بھی ان افراد میں شامل ہوں جن کو عمران خان کے نئے پاکستان نے متاثر کیا ہے کیونکہ مہنگائی کا اثر مجھ پر بھی پڑا ہے۔
10 روپے کی روٹی 15 کی ہو گئی، ہیں جی! یہ تو ایک الگ بحث ہے کہ ملک میں آٹے کا بحران کیسے پیدا ہوا اور کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں تاہم بحران شروع ہونے کے بعد عوام کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ کے نان بائیوں سے مذاکرات کے بعد 115 گرام کی روٹی 10 روپے اور 170 گرام روٹی کی قیمت 15 روپے کردی گئی اور یوں چھری عوام پر ہی چل گئی کیونکہ روٹی کا وزن کم ہوگیا اور اب وہ 15 روپے والی روٹی خریدنے پر مجبور ہیں۔ آٹے کے بحران کے بعد چینی کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
میری ایک دوست کہتی ہیں کہ مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ پہلے اگر وہ کوئی چیز 200 روپے میں لاتی تھیں تو اب وہی چیز 400 میں بکنے لگی ہے، وہ کہتی ہیں کہ ہر کوئی مہنگائی کا رونا رو رہا ہے، عمران خان نے غریب کو مزید غریب بنا دیا ہے کیونکہ مہنگائی پہلے بھی بڑھتی تھی لیکن پہلے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا تھا اب نہیں ہوتا اور تنخواہوں میں بھی بہت کم اضافہ ہوتا ہے جبکہ مہنگائی سو، دو سو اور کہیں تین سو فیصد بڑھ رہی ہے۔
اب اس کی رائے سے اختلاف بھلا کب اور کیسے ممکن تھا، میں نے کہا خوراکی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو شاید اسی لیے کہ وہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمیتیں جو آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، عمران خان کے نئے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں نے مجھے بھی بڑا متاثر کیا ہے، بتاتی ہوں کہ کیسے؟
"مجھ سے ٹرانسپورٹ چھن گئی۔” پہلے ایسا تھا کہ میں گھر سے ہی گاڑی میں بیٹھ کر دفتر پہنچ جاتی تھی اور ڈرائیور کو ماہانہ پیسے دیتی تھی لیکن اب انہوں نے یہ کہہ کر مجھے چھوڑ دیا کہ نئے پاکستان میں وہ اپنی گاڑی نہیں رکھ سکتے، مزید کہا کہ کہاں سے پورے کروں گاڑی کے اخراجات؟ ویسے بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے غریب بندہ کیا کرے، کہاں جائے؟ ان کے پاس گاڑی نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے بھی ٹرانسپورٹ چھن گئی۔
جب سے میں نے لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر شروع کیا ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ کیا نئے پاکستان سے پرانا پاکستان بہتر نہیں تھا؟ کیونکہ کم از کم میں آسانی کے ساتھ دفتر اور گھر آجا تو سکتی تھی اب تو مجھے گاڑیوں میں دھکے کھانا پڑ رہے ہیں۔ پرانے پاکستان میں ایک کلو سی این جی 91 میں بک رہی تھی جو اب 139 تک پہنچ گئی، اس کے ساتھ پیٹرول کی قیمت 90 اور 92 کے درمیان چل رہی تھی جو اب 117 فی لیٹر ہے۔ ظاہر ہے کہ نتیجتاً پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی بڑھ گیا ہے۔
ویسے اگر بات تبدیلی سرکار اور ذکر آئے ٹرانسپورٹ کا تو بھلا بی آر ٹی کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ اور شروع میں جن امیدوں کا میں نے ذکر کیا تھا یہ میٹرو ان میں سرفہرست نہیں تو ٹاپ فائیو میں تو ضرور ہے لیکن اب کیا کروں کہ بی آر ٹی سے بھی امید دم توڑنے لگی ہے۔
جب بی آر ٹی کا منصوبہ شروع ہوا تو مجھ سمیت باقی ملازمت پیشہ خواتین کی امید بندھ گئی کہ چلو اب سفر آرام سے کر سکیں گے مگر جس رفتار سے بی آر ٹی پر کام جاری ہے اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ بی آرٹی کبھی مکمل ہو پائے گی۔
عوام مہنگائی سے اس لیے بھی پریشان ہیں کہ ملک میں نوکریاں نہیں ہیں، تبدیلی سرکار نے عوام کو سنہرے خواب تو دکھائے تھے کہ ملک میں ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دی جائیں گی تاہم ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا، ہوا بھی تو پہلے سے برسر روزگار لوگوں کی ملزمتیں چھن گئیں، کسی کا کاروبار ڈوب گیا۔
جناب اگر دیکھا جائے تو نئے پاکستان میں کچھ نہیں بدلا، وہیں پرانا پاکستان ہے، بس مہنگائی، بے روزگاری اور نتیجتا لوگوں میں مایوسی بڑھی ہے، ہاں بدلے ہیں تو صرف سیاستدانوں اور وزراء کے چہرے! تو پھر ایسے میں میرے جیسے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا پرانا پاکستان نئے پاکستان سے بہتر تھا؟ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔