خیبر پختونخواعوام کی آواز

عوام پر بوجھ، وزیروں کو مراعات: خیبر پختونخوا کا 157 ارب سرپلس بجٹ، سہولیات ندارد

محمد فہیم

خیبر پختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پارٹی کی تنقید کے باوجود انتہائی پھرتی سے صرف ایک ہی دن میں منظور کر لیا گیا تھا۔ بجٹ کو 157 ارب سرپلس ظاہر کیا گیا ہے۔ یعنی صوبائی حکومت کے پاس اپنے اخراجات سے 157 ارب روپے اضافی موجود ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں صوبے کی جامعات میں اساتذہ کی تنخواہوں کیلئے رقم نہیں، ہسپتالوں میں ادویات موجود نہیں، سکولوں سے باہر 50 لاکھ کے قریب بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کیلئے وسائل نہیں اور صوبے کے لاکھوں شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ایسے میں صوبے کے پاس 157 ارب روپے اضافی کیسے رہ گئے؟ کیا اس رقم سے ان سہولیات کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاسکتی؟

خیبر پختونخوا پر بین الاقوامی امدادی اداروں کا قرض مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور بجٹ میں یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ برس 171 ارب 83 کروڑ روپے سے زائد کا قرض غیر ملکی امدادی اداروں سے لیا جائیگا جبکہ 5 ارب 35 کروڑ روپے کی گرانٹ ملنے کی بھی توقع ہے۔ صوبائی حکومت کو آئندہ برس غیر ملکی امدادی اداروں سے مجموعی طور پر 177 ارب 18 کروڑ روپے ملنے کا امکان ہے۔ جس میں سب سے زیادہ عالمی بینک سے 81 ارب 41 کروڑ، ایشیائی ترقیاتی بینک سے 72 ارب 8 کروڑ، انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی سے 5 ارب 88 کروڑ، امریکی امدادی ادارے سے 5 ارب 25 کروڑ، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈویلپمنٹ سے 3 ارب 92 کروڑ، جرمن بینک سے تین ارب 71 کروڑ، سعودی فنڈ سے دو ارب 24 کروڑ، کوریا انٹرنیشنل ایجنسی سے ایک ارب 40 کروڑ، جاپانی حکومت سے ایک ارب جبکہ چین سے 26 کروڑ روپے ملنے کی توقع ہے۔

بجٹ کو صوبائی حکومت ہمیشہ کی طرح عوام دوست اور ٹیکس فری قرار دے رہی ہے تاہم حقیقیت اس سے مختلف ہے ، بڑے شادی ہالز پر فی تقریب 50 ہزار کا ٹیکس لگا دیا گیا ہے، درمیانے شادی ہالز پر 20 اور چھوٹے شادی ہالز پر 10 ہزار روپے فی تقریب ٹیکس ہوگا۔ درزیوں یعنی (ٹیلرز) پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے، شلوار قمیص سینے والے درزیوں کو سالانہ 5 ہزار روپے جبکہ واسکٹ اور پنٹ شرٹ سینے والے درزیوں کو 15 ہزار روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح پیٹرول پمپ، سی این جی پمپ، چھوٹے دکاندار، پرائیویٹ سکول و کالج، ڈاکٹرز، وکلا، ہیلتھ کلینک اور دیگر شعبہ جات پر ٹیکس عائد یا پھر ان میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

عوام پر صرف ٹیکس کی مد میں نہیں بلکہ دیگر مدوں میں بھی بوجھ ڈال دیا گیا ہے، حکومت نے پولیس کو آئندہ برس ٹریفک جرمانوں، سیکیورٹی فراہمی اور دیگر مدوں میں تین ارب 26 کروڑ 70 لاکھ روپے اکٹھے کرنے کا ٹاسک حوالہ کر دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ ٹریفک جرمانوں کی مد میں ایک ارب 80 کروڑ روپے اکٹھے کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے جبکہ نجی اور سرکاری اداروں ،شخصیات اور محکموں کو پولیس سیکیورٹی فراہم کرنے کی مد میں 70 کروڑ، ڈرائیونگ لائسنس کی مد میں 50 کروڑ روپے، پولیس اہلکاروں اور سٹاف پر جرمانے اور تنخواہ کٹوتی کی مد میں اڑھائی کروڑ اور اضافی ادائیگیوں کی واپسی کی مد میں 22 کروڑ 20 لاکھ روپے اکٹھے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ایک جانب عوام کی چمڑی ادھیڑ پر وصولیاں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت کے اپنے خرچے ہی کم نہیں ہو رہے وزیر اعلی نے اپنے لئے کروڑوں کا سیکرٹ فنڈ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ رواں برس وزیر اعلی ہاﺅس میں کھانے پینے کے اخراجات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور ورکر کیلئے وزیر اعلی ہاﺅس پشاور کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے باعث وزیر اعلی ہاﺅس پشاور کے تفریحی اخراجات میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوگیا۔ صوبائی حکومت نے رواں برس وزیر اعلی ہاﺅس پشاور کے تفریحی اخراجات اور تحائف کیلئے ساڑھے تین کروڑ مختص کئے تھے۔

تاہم اب تک اس ضمن میں 12 کروڑ 42 لاکھ 79 ہزار 658 روپے خرچ کر لئے گئے ہے، اگر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو علی امین گنڈاپور نے دیگر وزراء اعلی سے زیادہ خرچ کیا ہے۔ وزیر اعلی سیکرٹریٹ کے رواں برس کے اخراجات کا تخمینہ 80 کروڑ 50 لاکھ سے زائد لگایا گیا تھا تاہم اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں 106 فیصد یعنی 85 کروڑ 85 لاکھ سے زائد اضافہ کردیا گیا اور یہ بڑھ کر ایک ارب 66 کروڑ 36 لاکھ روپے ہوگیا ہے۔ آئندہ برس کیلئے وزیر اعلی سیکرٹریٹ کا بجٹ ایک ارب 41 کروڑ 97 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب آفس کے بجٹ میں 19 فیصد یعنی 23 کروڑ روپے اضافے کیا گیا ہے اور آئندہ برس وزیر اعلی پنجاب سیکرٹریٹ کا بجٹ ایک ارب 46 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان سیکرٹریٹ کیلئے رواں برس ایک ارب دو کروڑ 8 لاکھ رکھے گئے تھے، جس میں انہوں نے 39 کروڑ 23 لاکھ روپے اضافی خر چ کئے ہیں۔

مجموعی طور پر وزیر اعلی سیکرٹریٹ بلوچستان کا بجٹ ایک ارب 41 کروڑ روپے ہوگیا ہے جبکہ آئندہ برس کیلئے وزیر اعلی بلوچستان سیکرٹریٹ کیلئے ایک ارب 31 کروڑ 52 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیر اعلی سندھ سیکرٹریٹ کیلئے مالی سال 2024-25 میں ایک ارب 32 کروڑ 92 لاکھ کا بجٹ مختص کیا گیا۔ جس میں نظر ثانی کرتے ہوئے اسے بڑھا کر ایک ارب 62 کروڑ 63 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے جبکہ آئندہ برس کیلئے تخمینہ ایک ارب 34 کروڑ 79 لاکھ روپے لگایا گیا ہے جو رواں برس کی نسبت صرف 1.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ایک کروڑ 87 لاکھ 15 ہزار روپے بنتا ہے۔

صوبائی حکومت سے عوام کو بڑی امیدیں رہتی ہے لیکن بجٹ میں چند ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جو عوام کیلئے انتہائی حیران کن ہیں، صوبائی حکومت نے پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں گھڑ سواری کلب قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر 20 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ حکومت چار اضلاع میں گھوڑوں کی افزائش نسل کے لیے 50 کروڑ روپے کی لاگت سے علیحدہ منصوبہ بھی شروع کر رہی ہے۔ ہری پور میں بھی خیبر پختونخوا ہاﺅس بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ہری پور کے پرفضا مقام مکھنیال میں خیبر پختونخوا ہاﺅس کی تعمیر کی جائیگی ۔

جس پر 50 کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں پرانے سرکٹ ہاﺅس کی اپگریڈیشن کرتے ہوئے اسے خیبر پختونخوا ہاﺅس بنانے کا کام بھی جاری ہے۔ جسے آئندہ برس مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سرکٹ ہاﺅس کی اپگریڈیشن پر 40کروڑ روپے کی لاگت آئیگی جبکہ شانگلہ ٹاپ کے پرفضا مقام پر ریسٹ ہاﺅس بھی تعمیر کیا جارہا ہے جس کیلئے بجٹ میں تقریبا چار کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت ایک جانب شفافیت کی دعویدار ہے تو دوسری جانب اصل اعداد و شمار چھپائے جا رہے ہیں خیبر پختونخوا کی بجٹ دستاویز میں رواں مالی سال کے اصل اخراجات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں، حکومت کی جانب سے ہر سال جب آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے کہ تو گزشتہ برس کے اخراجات کی نظر ثانی اور ساتھ ہی 11 ماہ کے اصل اخراجات بھی پیش کر دیئے جاتے ہیں تاہم امسال صوبائی حکومت نے رواں برس کے 11 ماہ کے اخراجات کی تفصیلات بجٹ دستاویز کا حصہ نہیں بنائی ہے۔ جس کے باعث رواں مالی سال کے بجٹ کا اصل حجم بھی سامنے نہیں’ اسی لئے اصل اعداد و شمار کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے ۔

Show More

Muhammad Faheem

محمد فہیم گزشتہ 16 سال سے پشاور میں صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ مقامی حکومتوں، خواتین، اقلیتوں، سیاحت، مالی اور ماحولیاتی امور سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں اور اخبار، ٹی وی، آن لائن اور ریڈیو کیساتھ منسلک ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button