خیبر پختونخواعوام کی آواز

بٹ خیلہ نہر کے اراضی مالکان کی سو سالہ معاہدے کی تجدید کے لیے حکومت سے مطالبہ

محمد انس

بٹ خیلہ نہر اراضی مالکان اور برطانوی حکومت کے درمیان 1907 میں طے پانے والے سو سالہ معاہدے کی مدت 2007 میں ختم ہو چکی ہے، مگر اب تک حکومت پاکستان نے معاہدے کی تجدید کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ معاہدے کے مطابق، برطانوی حکومت نے نہر اراضی مالکان کو سالانہ 30 سے 60 روپے تک اجارہ دینے کا عہد کیا تھا، جو کہ اُس وقت کے لحاظ سے مناسب تھا۔ تاہم، موجودہ حالات میں یہ اجارہ مالکان کے مطابق ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد، بٹ خیلہ نہر اراضی مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاہدے کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے، مگر ایریگیشن ڈپارٹمنٹ اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں، اراضی مالکان نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا، مگر تاحال فیصلہ نہیں ہو سکا ہے، اور عدالت کی جانب سے تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے، بٹ خیلہ نہر اراضی مالکان نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کے ترجمان، ظفر ابراہیم خیل نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انگریزوں نے نہر کھودنے کا منصوبہ ہمارے بزرگوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے پہلے اسے ناممکن سمجھا تھا اور کہا تھا کہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو انگریز ہماری زمینوں کو واپس بھر دیں گے۔ اس پر انگریزوں نے رضامندی ظاہر کی اور نہر کھودنے کا کام شروع کیا، جو بالآخر کامیاب ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "انگریزوں نے بارانی زمینوں کا اجارہ 30 روپے مقرر کیا جبکہ جن زمینوں کا آبپاشی کا انتظام ٹھیک تھا، ان کا اجارہ 60 روپے رکھا گیا تھا۔”

جب ان سے احتجاج کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ "ہم نے کئی بار احتجاج کیے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔” انہوں نے مزید کہا کہ "اگر حکومت ہمارے مطالبے کو رد کرتی ہے اور عدالت بھی ہمارے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو ہم پھر ایک زبردست احتجاج کریں گے اور پورا علاقہ ہمارے ساتھ تعاون کرے گا۔”

دوسری جانب، اس معاملے کے دوسرے فریق، ایریگیشن ڈپارٹمنٹ ملاکنڈ کے ایکس ای این، اصف خان، نے کہا کہ "ہمیں اس مسئلے پر میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ کس نے منع کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ "اوپر سے ایک نوٹیفکیشن ہوا ہے کہ کوئی بھی بندہ میڈیا سے بات نہیں کرے گا۔ میڈیا کو بیان دینے کیلئے ہر ادارے کے ساتھ فوکل پرسن ہوتا ہے۔” ان سے پوچھا کہ آپکا فوکل پرسن کون ہے تو کہا فلحال نہیں ہے پھر انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر میں آپ کو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ "جب عدالت فیصلہ کرے گی تو ہم بھی مانیں گے اور نہر اراضی مالکان بھی مانیں گے۔”

ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک اور ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "یہ سو سالہ معاہدہ تھا۔ وہ ختم ہوا اور بات ختم۔ یہ نہریں تو پورے پاکستان میں ہیں، کسی کو ایک روپیہ بھی نہیں ملتا، ان کو تو پھر بھی 30 سے 60 روپے تک دیا جاتا ہے۔”

Show More
Back to top button