قبائلی اضلاع کا واحد وومن نرسنگ کالج 18 سال بعد بھی فعال کیوں نہ ہوسکا؟
محمد بلال یاسر
خیبرپختونخوا کے نئے ضم ہونے والے قبائلی ضلع باجوڑ میں نئے ضم شدہ اضلاع کا واحد وومن نرسنگ کالج کی تعمیر 2006 میں مکمل ہوئی۔ مگر 18 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک یہ کالج فعال نا ہو سکا، اس نرسنگ کالج پر سرکاری خزانے سے خرچ کی گئی بھاری رقم عملاً ضائع ہو چکی ہے۔ سال 2007 میں اس کو فعال کرنا تھا تاہم بدقسمتی سے 18 سال گزرنے کے باوجود بھی یہ کالج فعال نہ ہوسکا۔
16فروری2007 کو محکمہ صحت باجوڑ کے سربراہ ڈاکٹر عبدالغنی پر درہ سلارزئی کے مقام پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا تھا جس میں ڈاکٹر عبدالغنی اور ایک ای پی آئی ٹیکنیشن سراج الدین شہید ہوگئے تھے جبکہ چار افراد زخمی ہوگئے تھے، جس کے بعد اس کالج کو شہید ڈاکٹر عبدالغنی کالج کا نام دیا گیا۔
حاجی طور گل ( فرضی نام ) کا تعلق ماموند سے ہے مگر اپنی بیٹی کی پڑھائی کے خاطر وہ خار شفٹ ہوگئے ہیں، یہاں سے میٹرک کے بعد اس نے مجبوراً اپنی بیٹی کو دوسرے شہر میں نرسنگ کی تعلیم کیلئے بھیجا ہے۔ ان کہنا ہے کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ان کی بیٹی نرسنگ مکمل کرکے اپنے علاقے میں عوام بالخصوص خواتین مریضوں کی خدمت کرے ۔ میں نے اپنی بچی کے تعلیم کی خاطر آبائی علاقے کو چھوڑا جہاں پرائمری کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کے ذرائع نہ تھے، مگر یہاں بھی میری بیٹی کا گھر پر رہائش کے ساتھ تعلیم کے حصول کا خواب پورا نہیں ہوسکا اور مجبوراً دوسرے شہر تعلیم کیلئے بھیجنا پڑا جو ہمارے جیسے قدامت پسند معاشرے میں نہایت مشکل کام ہے۔
طور گل کا کہنا ہے کہ اگر منتخب نمائندگان ، محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام اور انتظامیہ حقیقی معنوں میں کوشش کریں تو باجوڑ میں 18 سال قبل بننے والا وومن نرسنگ کالج فعال ہوسکتا ہے، جس میں میری بیٹی سمیت بہت ساری بچیوں کو اپنے علاقے میں نرسنگ کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ اپنے ضلع سے باہر تعلیم کے علاوہ بچیوں کی رہائش ، ٹرانسپورٹ اور دیگر بہت سارے اخراجات ہمارے بس میں نہیں۔
باجوڑ کے محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کالج کیلئے سال 2012 میں آسامیاں منظور کی گئی جس میں ایک پرنسپل، وائس پرنسپل، تین نرسنگ ٹیوٹرز، ایک کمپیوٹر آپریٹر، ایک سینئر کلرک، ایک ہاؤس کیپر، ایک جونیئر کلرک، دو ڈرائیور، چار نائب قاصد ، دو چوکیدار، ایک باورچی، دو سویپر، اور دو بیریئر کی آسامیاں شامل تھیں۔ ان میں سے پانچ آسامیوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں تاہم باقی ماندہ 17 آسامیوں پر تاحال بھرتی نہیں کی گئی۔ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، ان میں ایک ڈرائیور جبکہ دو نائب قاصد کو سابقہ پولیٹکل ایجنٹ عامر خٹک کے دور میں بھرتی کیا گیا تھا اس کے علاوہ دو افراد کو ہائیکورٹ کے حکم پر ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کیلئے دو بار پرنسپل کی تقریریاں کی گئی لیکن وہ عارضی بنیادوں پر تھی لیکن پھر بھی کالج کو فعال نہیں کیا گیا۔ جب یہ سابقہ فاٹا تھا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات تھے، تو یہ کالج ڈائریکٹریٹ ہیلتھ سروسز فاٹا کے زیر انتظام تھا لیکن انہوں نے کالج کو فعال بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے تھے۔ تاہم جب سابقہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا تو ضم شدہ اضلاع (فاٹا) میں ایک نیا نظام آیا۔ جس میں اس کالج کو 2020 میں پراونشل ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے حوالہ کیا گیا اور اب یہ کالج (PHSA) کے زیر انتظام ہے۔ پی ایچ ایس اے نے کالج کو فعال بنانے کیلئے کوئی اقدامات اب تک نہیں کئے اور دو بار عارضی بنیادوں پر پرنسپلز کی تقرریاں کی جو واپس لی گئی۔ ایک بار ایک سابقہ بریگیڈئیر کی بحیثیت پرنسپل تقرری کی گئی۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال خار کے ایم ایس ڈاکٹر وزیر خان صافی نے بتایا کہ موجودہ وقت میں ضلع باجوڑ کے ڈی ایچ کیو ہسپتال جوکہ ضلع کا مرکزی ہسپتال ہیں، میں نرسز کی ٹوٹل آسامیاں 56 ہیں جن میں 45 پوسٹوں پر تعیناتی کی گئی ہیں اور سب سے ذیادہ تعداد میل نرس کی ہیں۔ میل نرس کی تعداد 35 جبکہ فی میل نرس کی تعداد چھ ہیں، انہوں نے بتایا کہ موجودہ وقت میں ڈیڑھ درجن نرسز کی پوسٹیں خالی ہیں۔
ڈاکٹر وزیر خان صافی کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال خار میں فی میل نرس کی ذیادہ ضرورت ہیں لیکن مقامی نرس نہ ہونے کیوجہ سے یہاں پر فی میل نرسز کی پوسٹیں اکثر خالی رہ جاتی ہیں کیونکہ اکثر نرسز کی تعیناتی ڈومیسائل کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔لوکل فی میل نرس موجود نہیں ہیں جبکہ غیر مقامی نرسز یہاں آنے کیلئے تیار نہیں ہیں جس کیوجہ سے ماضی میں بھی فی میل نرس کی خالی پوسٹوں پر میل نرس کی تعیناتیاں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ غیر مقامی نرسز یہاں پر اسلئے نہیں آتی کہ ان کیلئے سہولیات میسر نہیں ہیں اور بنیادی مسئلہ ان کی رہائش کا ہوتا ہے۔
باجوڑ سے صوبائی اسمبلی کے رکن اور ڈیڈک کمیٹی چیئرمین ڈاکٹر حمید الرحمان کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے اس اکلوتے وومن نرسنگ کالج کیلئے میں نے گزشتہ ہفتے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بھی کال اٹینشن پر آواز اٹھائی اور قبائلی اضلاع اور بالخصوص باجوڑ کے عوام اور نرسنگ کے طالبات کے تکالیف کا ذکر کیا، جس پر صوبائی وزیر صحت نے فوری رد عمل دیتے ہوئے جلد سے جلد اسے کھولنے کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے بتایا کہ کالج کو فعال بنانے میں طویل تاخیر نہ صرف طلباء کو پشاور، مردان، سوات، تیمرگرہ اور دیگر شہروں کے نرسنگ کالجوں میں داخلہ لینے پر مجبور کر رہی ہے بلکہ قیمتی آلات کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے، کالج کی عمارت اور ملحقہ ہاسٹل دونوں ہی خراب حالت میں ہیں۔ ہاسٹل فی الحال DHQ ہسپتال کے نرسنگ سٹاف کے زیر استعمال ہے۔ اس لیے ہم ترجیحی بنیادوں پر اس کھولنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔