خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری کے لئے میریج ایکٹ موجود نہیں، اقلیتی برادری
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کی اقلیتی برادری کا دعویٰ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اب تک خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کی شادی کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قانون وضع نہیں کیا گیا جس کے باعث شادی شُدہ جوڑوں کو قانونی اور سماجی مسائل خصوصاً علیحدگی کے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صوبے کی اقلیتی برادری میں اس قانون کی عدم موجودگی پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
خیبرپختونخوا کی عیسائی برادری کے مذہبی سکالر آصف کُمار کہتے ہیں کہ اقلیتی برادری کیلئے میریج ایکٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے انکی برادری کو نہ صرف قانونی بلکہ سماجی مسائل کا سامنا ہے جس سے ان کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں مسیحی برادری کے روزگار اور معاش کے کافی مسائل موجود ہوتے ہیں جس کے لئے حکومت نے محکمہ اوقاف کی جانب سے انہیں سکالرشپس، جہیز فنڈ اور دیگر تعلیمی اخراجات جیسی سہولیات فراہم کرنے کے احکامات دیئے ہیں مگر ان میں سے چند ایسی سہولیات ہیں جن سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔
آصف کُمار کہتے ہیں کہ اُن کے خاندان کے افراد نہایت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، چند سال قبل ان کی خالہ زادہ بہن کی شادی طے ہوگئی تھی جس کیلئے انہوں نے محکمہ اوقاف سے جہیز فنڈ کیلئے اپلائی کیا مگر محکمے نے انہیں وہ فنڈ اسلیئے فراہم نہیں کیا کہ ان کی خالہ زاد بہن کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہوئی تھی۔
آصف کہتے ہیں "اگر قانون موجود ہوتا تو اس میں صاف لکھا ہوتا کہ شادی سے پہلے ہی جہیز فنڈ دیا جائے لیکن قانون موجود نہیں ہے تو محکمے والوں کو بہانہ ملتا ہے کہ پہلے رجسٹریشن کروائیں۔ رجسٹریشن تو نادرا سے تب ہوتی ہے جب شادی ہو جائے، لہذا وہ اس سہولت سے محروم ہوگئے”۔
انہوں نے بتایا کہ اُن کے ہاں جوڑے کی علیحدگی بھی اسی قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہو سکتی کیونکہ دس سال پہلے ان کے ایک اور خالہ زاد بھائی کی اپنی بیوی سے علیحدگی کا مسئلہ پیش آیا جس کے لئے عدالت جانا پڑا مگر آج بھی وہی کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ مسلمان مردوں کو طلاق اور خواتین کو خلع لینے کا قانونی حق ہے اور چند سماعتوں میں وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے لیکن ہمارا ایسا نہیں ہے کیونکہ قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ پیرامیٹرز طے نہیں کئے گئے ہیں۔
آصف کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مسیحی برادری کا نہیں بلکہ جتنی بھی اقلیتی برادری ہیں، وہ سب ازدواجی زندگی اور سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پشاور میں مقیم ضم شدہ قبائلی اضلاع کے سکھوں کے نمائندے 26 سالہ باباجی گوروپال سنگھ نے ٹی این این کو اقلیتوں کے میریج ایکٹ کی عدم موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پنجاب اور سندھ کی طرح سکھ برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن کیلئے حکومتی سطح پر کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے سکھوں کو سماجی، معاشرتی اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
باباجی گوروپال نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور سندھ کی طرح خیبر پختونخوا میں سکھ میرج ایکٹ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں میاں بیوی کے درمیان پیش آنے والے گھریلو اور قانونی مسائل قانونی طور پر حل کئے جا سکیں۔
انہوں نے کہا "قانون کی عدم موجودگی میں اگر کسی جوڑے کے درمیان علیحدگی ہو جائے تو خاتون کیلئے حق مہر یا جہیز واپس لینے کیلئے کوئی قانونی راستہ موجود ہوتا ہے اور نہ وہ عدالت میں اپنے حق کیلئے مقدمہ کر سکتی ہے”۔
گوروپال نے مزید بتایا "موجودہ صورتحال میں سکھ جوڑے کے پاس کوئی قانونی شواہد موجود نہیں ہوتے تاکہ یہ بات یقینی رہے کہ وہ آپس میں میاں بیوی ہیں۔ جب شادی شُدہ جوڑا شادی کے بعد ہنی مون یا پکنک پر جاتا ہے تو اکثر پولیس یا دیگر سیکورٹی ادارے انہیں روک کر آپسی رشتے کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں اور اُن پر یہ شک کیا جاتا ہے کہ کہیں یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہیں”۔
ان سے جب شادی شُدہ خاتون کے ماتھے پر بندی یا سندور کے بارے میں پوچھا گیا تو گوروپال نے کہا "ماتھے پر بندی یا سندور سے اس بات کو باور نہیں کرایا جا سکتا کہ ہاں یہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں کیونکہ یہ تو ثبوت نہیں ہے، یہ تو کوئی بھی خاتون لگاسکتی ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سکھ میرج ایکٹ لایا جائے۔”
قانون کی عدم موجودگی میں سکھوں کی شادی کیسے ہوتی ہے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم اقلیتی رائٹس فورم کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب میں شادی کا طریقہ کار نہایت سادہ ہے لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، جس طرح اسلام میں ایک شخص قرآن پاک کی آیات پڑھ کر نکاح پڑھوا دیتے ہیں بالکل اسی طرح مذہبی کتاب گرو گرنتھ کے تحت نکاح پڑھایا جاتا ہے، جس کے بعد گرنتی کے لیٹر پیڈ پر چار گواہان دستخط کرتے ہیں اور تصدیق شدہ دستاویزات کو نادرا میں جمع کرنے پر جوڑے کا شجرہ نسب بنایا جاتا ہے۔
رادیش کا کہنا تھا کہ سکھ میرج ایکٹ کی عدم موجودگی سے سکھ برادری اپنی ازدواجی اور سماجی زندگی کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ ان کے مطابق "جب یہ قانون بن جائے تو مسلمانوں کی طرح ہمیں بھی ایک کمپیوٹرائزڈ اور قانونی نکاح نامہ ملے گا”۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قانون کی عدم موجودگی میں کتنے خاندانوں کے درمیان علیحدگی ہوئی اور کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک کسی بھی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا واقعہ سامنے نہیں آٰیا لیکن سکھ میرج ایکٹ کا قیام مستقبل میں آنے والے مسائل کے حل کیلئے ایک راستہ ہو گا۔
رادیش کا کہنا تھا کہ جب 3 جولائی 2020 کو شیخوپورہ ٹرین کا حادثہ ہوا تو اس میں جاں بحق 21 افراد کا تعلق پشاور سکھ برادری سے تھا جن کی بیویوں کی گوردوارے میں گورو گرنت کی تعلیمات کے تحت اپنی برادری کے دیگر افراد کے ساتھ شادیاں کرا دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مذہب میں طلاق کا کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے اور نہ اس طرح کا کوئی واقعہ سامنے آیا ہے لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف آ بھی جائے تو وہ گھر کی سطح پر حل کیا جاتا ہے، اگر گھر کی سطح پر مسئلہ حل نہ ہو تو گرودوارے میں اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ‘خدانخواستہ’ معاملہ یہاں بھی حل نہ ہوا تو پھر ہمارے لئے قانونی راستہ کیا ہو گا؟
دنیا بھر میں پاکستان کا پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں پر 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں سکھ میرج انند کاراج ایکٹ 2018 کے نام سے قانون منظور کیا گیا تھا لیکن رادیش سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس کے لئے رولز ترتیب نہیں دیئے، اس لئے ہم نئی حکومت سے رولز بنانے اور قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رادیش نے بتایا کہ ان کے پاس اپنی برادری کی مصدقہ تعداد موجود نہیں کیونکہ سال 2017 کی مردم شماری فارم پر مذاہب کے خانے پر سکھ برادری کیلئے کوئی خانہ مختص نہیں کیا گیا تھا جس پر ہم نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور عدالت نے اگلی مردم شماری فارم میں سکھوں کیلئے الگ خانہ رکھنے کا حکم دیا۔ ان کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں تقریباً 15 ہزار سکھ افراد رہتے ہیں۔
پاکستان میں سکھوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سکھ ریسورسز اینڈ سٹڈی سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں 50 ہزار سکھ افراد رہتے ہیں جبکہ نادرا کے پاس 6 ہزار 146 افراد رجسٹرڈ ہیں۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے سرکاری ادارے کے 2017 کی مردم شماری کے مطابق مذاہب کی بنیاد پر ملک بھر میں 96 اعشاریہ 47 فیصد مسلمان، 1 اعشاریہ 27 فیصد عیسائی، 1 اعشاریہ 73 فیصد ہندو، اعشاریہ 09 احمدی اور اعشاریہ 41 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری رہتے ہیں۔
سکھ میریج ایکٹ کی قیام پر خیبر پختونخوا حکومت کا ردعمل
صوبائی وزیر برائے مذہبی ہم آہنگی و اقلیتی امور محمد عدنان قادری نے سکھ میرج ایکٹ کا قیام ضروری سمجھتے ہوئے کہا کہ حکومت سکھ میرج ایکٹ بنانے کیلئے تیار ہے جس کے لئے کچھ عرصہ قبل سکھ برادری کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت بھی ہوئی تھی جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں پاس کردہ سکھ میرج انند کاراج ایکٹ کو اپنی برادری سے متفقہ طور پر منظور کروا کر ہمیں بجھوائیں جس پر کارروائی شروع کی جائے گی۔
وزیر نے بتایا "یہ قانون سب کیلئے ضروری ہے، دیکھیں اب اگر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ پیش آ جائے تو قانون کی عدم موجودگی میں وہ عدالت سے کیسے انصاف مانگیں گے، اس کے علاوہ ملک یا ملک سے باہر جانے والے جوڑے بغیر نکاح نامہ کیسے جائیں گے، تو میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے۔”
انہوں نے صوبے میں قانون بننے کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سکھ کمیونٹی سے یہ تجویز کردہ قانون پاس ہو جائے تو اسے لاء ڈیپارٹمنٹ کو بھجوایا جائے گا جس کے بعد وزیر اعلیٰ کے دستخط سے یہی بل اسمبلی میں پیش ہو گا، اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ کو بھجوا کر رولز ترتیب دیئے جائیں گے جس کے بعد یہ قانون عملی ہو جائے گا۔