پاکستان سمیت پوری دنیا میں 21 اور 22 جولائی گرم ترین دن قرار پائے
کیف آفریدی
موسمیاتی تغیر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر سال گرمی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ سردیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ رواں سال جون اور جولائی میں سخت ترین گرمی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ لوگ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پشاور کے قصہ خوانی بازار میں شربت بیچنے والے عرفان اللہ کہتے ہیں کہ اس سال جو گرمی ہے وہ کبھی نہیں دیکھی۔ وہ شربت تو بیچ دیتے ہیں اور کام بھی اسکا اچھا جا رہا ہے لیکن وہ گرمی کی شدت سے پریشان ہیں۔ کیونکہ کہ وہ دھوپ میں کھڑا رہتا ہے حالانکہ انکی اپنی چھتری بھی ہے تاہم پھر بھی گرمی کی اس شدید لہر نے انہیں کافی متاثر کیا ہے۔ عرفان اللہ نے کہا کہ چند دن پہلے بھی انکو ہیضہ ہوا تھا اور پھر دو دن اس نے کام سے چھٹی بھی کی تھی۔ ڈاکٹر نے انہیں آرام کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ گرمی کی وجہ سے آپکو مسلہ درپیش آیا ہے۔ ڈاکٹر نے زیادہ پانی پینے اور سایے میں کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عرفان اللہ کی طرح گارمینٹس کا کام کرنے والے حاجی معراج بھی رواں سال گرمی کی شددت سے بہت پریشان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے گرمیوں میں بھی گاہگ آتے تھے اور اب دور دور تک نظر نہیں آرہے ظاہر ہے جب اتنی سخت گرمی ہو تو خواتین کیوں گھر سے باہر نکلے گی۔ ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین گاہگ آتی ہیں وہ گرمی کی زیادہ شدت کی وجہ سے وہ گھروں تک محصور ہو گئی ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو پہلے گرمیوں میں بھی لوگ شاپنگ کے لیے آتے تھے اور خاص کر جشن آزادی بھی آنے والی ہے تو میرا نہیں خیال کہ لوگ خریدادی کے لیے بازاروں کا رخ کرینگے اگر گرمی کا یہ حال رہا تو۔
حاجی معراج نے کہا کہ گرمی کی شدت تو زیادہ ہے پر ساتھ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے بھی حد کیا ہے۔ جس سے انکا برا حال ہوا ہے اور سر درد بھی رہتا ہے۔ خدا جانے یہ اتنی سخت گرمی کہاں سے آئی۔
پچھلے سال کونسے مہینوں میں درجہ حرارت زیادہ ہوا تھا؟ جبکہ روں سال ابھی تک کن مہیںوں میں درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے کو ملا؟
اس حوالے کلائمیٹ چینج کے ایکسپرٹ داود خان نے ٹی این این کے بتایا کہ پاکستان میں پچھلے سال مئی کے مہنے میں درجہ حرارت 19 سینٹی گریڈ تک محدود رہا اور لوگوں کا خیال تھا کہ گرمی کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوگی۔ تاہم جون اور جولائی میں جب درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تو لوگوں کی چیخیں نکل گئی۔ اسی طرح رواں سال میں 21 اور 22 جولائی 2024 نہ صرف پاکستان میں بلکہ گلوبل میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے سے یہ دن تاریخ کے گرم ترین دن قرار پائے اور یہ تجزیہ برطانیہ کے ادارے کاربن بریف نے کیا ہیں۔ ادارے کا کہنا تھا کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے یہ دن سخت گرم ترین دن تھے۔ ادارے نے جو ڈیٹا اکھٹا کیا ہے ان میں 66 ممالک شامل تھے جبکہ ان ممالک میں چند ممالک ایسے بھی تھے جہاں پر ٹمپریچر سرد رہتا ہے۔ جیسا کہ یورپ، لاطینی امریکہ میں ایسے ممالک موجود ہیں جہاں پر گرمی بہت کم رہتی تھی وہاں پر بھی درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عام طور پر جولائی کا مہینہ گرم ترین رہتا ہے لیکن اب کچھ ایسے بھی لگ رہا ہے کہ اگست کا مہینہ بھی گرم رہے گا تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
داؤد خان کہتے ہے کہ "عالمی معاہدہ پیرس ایگریمنٹ 2015” کے بعد تقریبا 170 تک ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم گرین ہاؤس اثرات کو کم کر دینگے جیسا کہ کاربن، میتھین ، کوئلہ اور پٹرولیم مصنوعات سے چلنے والے چیزوں کا استعمال کم کرئنگے اور ہوا سے، پانی یا سولر سے انرجی حاصل کرینگے۔ اسی طرح پٹرولیم یا گیس سے چلنے والی گاڑیوں کو کم کر کے الیکٹرنک گاڑیوں کا استعمال زیادہ کرینگے۔ پیرس معاہدے کے مطابق یہ سارا ٹارگٹ 2030 تک ایگریمئنٹ ہو گا۔ اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو یہاں پر بھی الیکٹرک موٹر بائیک شروع ہو چکے ہیں اور سولر پینل کا کام تو بہت تیزی سے پھیل رہا ہے تو اسی طرح اقدامات سے گرین ہاؤس ایفکٹ کے اثرات کم کرنے میں مدد ملے گی۔
درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں صحت، معیشت اور زراعت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ماہر کلائمیٹ چینچ داؤد خان نے بتایا کہ جب درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو ظاہر ہے ہیٹ ویویو آتی ہے تو اگر احتاط نہ کی جائے تو لوگ اس سے مر جاتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی اس سے مر رہے ہیں۔ اگر معیشت کی بات کی جائے تو درجہ حرارت اس پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت کے زیادہ ہونے سے فروٹ، سبزی اور زراعت بہت متاثر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسکی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔ گزشتہ کئ سالوں سے پھلوں کی پیداوار میں کمی دیکھنی کو ملی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملاکنڈ کے علاقوں میں آڑو جبکہ پورے صوبے میں آلوچے کی پیداوار میں بھی بھی کمی آتی جارہی ہے ساتھ میں انکے سائزبھی چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ سب درجہ حرارت کے بڑھ جانے سے ہوتے ہیں۔ داود خان نے مزید کہا کہ ضلع صوابی میں بھی پچھلے سال تمباکو پر کافی برا اثر پڑا تھا بروقت بارش نہ ہونے اور خلاف معمول بارشوں اور ژالہ باری کی وجہ سے اس فصل کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ کسانو پر اخراجات کا بوجھ بھی پڑا جو انہوں نے فصل کی تیاری پر خرچ کئے تھے۔
تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ درجہ حرارت کے زیادہ ہونے جبکہ خلاف معمول بارشیں، ژالہ باری اور طوفان سے انسان کی پوری زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کے موسموں میں کیا کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہیں؟
میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ پشاور کے ڈائیرکٹر ڈاکٹر محمد فہیم کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ بارشیں اور پھر ایک دم خشک سالی، گرمی کی شددت میں بے انتہا اضافہ موسمیاتی تغیر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
بین الاقوامی ادارے اور خاص کر آئی پی سی سی وغیرہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا بلخصوص پاکستان میں کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کا اثر اور بھی بڑھے گا جیسے کہ گرمی کا دورانیہ زیادہ ہونا یا معمول سے زیادہ بارشیں ہونا اس میں شامل ہے۔
جتنا وقت گزرتا ہے تو موسمیاتی تبدیلی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پچھلے مہینے میں 21 مئ سے لیکر 27 مئ تک ہیٹ اسٹروک کا ایپی سوڈ رہا۔
پہلے ہیٹ اسٹروک دو یا تین دن ہوا کرتے تھے اب اس کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کے میدانی علاقے اور خیبرپختونخوا میں بھی اس سال ہوا میں نمی کا تناسب کم دیکھائی دے رہا ہے۔ گرمی کی شددت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ مئی کے مہینے میں ہمارے جنوبی اضلاع جیسے کہ ڈیرہ اسماعیل خان او بنوں وغیرہ میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔
ڈاکٹر محمد فہیم کہتے ہیں کہ جون اور جولائی کی مہینوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں گلئشیئر پگھلنے کا خدشہ رہا اور ظاہر ہے اگر گلئشر پگھل جائے تو ان سے دریاوں میں پانی کا بہاؤں بڑھ جاتا ہے جس سے سیلاب آنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ جون اور جولائی میں ہیٹ اسٹروک کے بھی کچھ ایپی سوڈ کا امکان رہا۔
جولائی سے آگست کے درمیاں درجہ حرارت کے بڑھنے کا بھی خدشہ موجود ہے اور اسکے لئے متعقلہ ادارے پروینشل ڈیزاسٹر منئجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کے ساتھ ہم رابطے میں رہتے ہیں اگر اس طرح کوئی خطرناک حالات سامنے آتے ہیں تو ہم انکو پہلے سے ہی آگاہ کر لیتے ہیں۔
یاد رہے کہ ورلڈ میٹرولجیکل آرگنائیزشن نے سال 2023 کو دنیا کا ریکارڈ ہونے والا گرم ترین سال قراردیا تھا تو اُس وقت سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین نے کہا تھا کہ یہ سلسلہ اب رکنے والہ نہیں ہے، اور ایسا ہی ہوا جولائی 2024 کے راوں ہفتے میں دو بار درجہ حرارت پچھلے تمام ریکارڈ توڑ گیا۔ یورپی یونین کے کوپرنیکس ارتھ آبزرویشن سروسز ادارے کی طرف سے جاری ڈیٹا کے مطابق ایک سال قبل 06 جولائی 2023 کو 8۔17 سینٹی گریڈ گرم ترین درجہ حرارت تھا جو اس سال جولائی 21 کو 9۔17 اور 22 جولائی 16۔17 تک پہنچ گیا جو اب تک تمام ریکارڈ توڑ گیا ہے۔