اپردیر میں قدرتی مشروم کی پیداوار کیسے سینکڑوں غریب خاندانوں کے روزگارکا ذریعہ بن رہی ہے؟
زاہد جان دیروی
خیبر پختونخوا کا ضلع اپر دیر پشاور سے شمال مغرب کی جانب تقریبآ دو سو ساٹھ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اپر دیر کے مختلف بالائی علاقوں کوہستان، گولدائی ،ڈوگ درہ، دوبندو،ہاتن درہ ،براول ،عشیری درہ میں قدرتی مشروم جو پہاڑوں، جنگلات،کھیتوں اور جھرنوں جھاڑیوں میں مارچ سے مئی تک موسم بہار کے بارشوں کے دوران وافر مقدار میں اگتا ہے۔
یہ مشروم ساخت میں چھوٹا ہے لیکن منافع کی صورت میں انسان کو بادشاہ اور نقصان کی صورت میں گدا بنا دیتا ہیں۔
اس قیمتی جنگلی مشروم کو مقامی طور پرلوگ گوسی(گوچی) کے نام سے پہچانتے ہیں۔ جو بالائی علاقوں کے لوگوں کا اہم ذریعہ روزگار بن چکا ہے۔ لیکن مشروم کو جنگلوں میں تلاش کا کام بہت مشکل اور تھکن والا ہوتا ہے۔
دیر کے علاقے دوبندو کے مقامی رہائشی گل زمین کا کہنا ہے کہ گوسی (مشروم) کا سیزن سردیوں کے اختتام اور بہار کی بارشوں کے آغاز سے شروع ہو جاتا ہے۔ مشروم علاقے زخنہ ، دوبندو سمیت دیگر علاقوں کے مقامی لوگ اور کاروباری افراد اپنے طور پر پہاڑوں ، جنگلوں میں تلاش کرنے کیلئے نکل جاتے ہیں۔
گل کا کہنا ہے کہ یہ مشروم ضلع کے مختلف علاقوں ہاتن ، بین ، شینگاڑ درہ براول، کوہستان کے تھل ،لاموتی ،کلکوٹ، ڈوگ درہ بشمول پورے ملاکنڈ ڈویژن کے بالائی علاقوں کے پہاڑ، جنگل ، جھاڑیوں اور کھیتوں میں پائےجاتے ہیں ۔ کیونکہ مشروم کی تلاش ضلع دیر میں صدیوں پرانی ہے۔
لیکن اب پچھلی دو دہائیوں سے اس کی مانگ ملکی اور بین الااقوامی مارکیٹ میں بڑھ گئی ہے اور فی کلو قیمت فروخت ہزاروں میں ہونے لگی تو لوگ اسے کھانے کی بجائے بطور روزگار استعمال کرتے ہیں اور ایک سیزن میں غریب اور بے روزگار افراد تین چار، مہینے محنت کرکے لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔
گل زمین کہتے ہیں کہ مشروم کا روزگارعام ہونا یورپ ،امریکہ اور ایران جیسے ممالک میں میڈسن استعمال اور سپیشل ڈشش خوراک کیلئے استعمال ہونے کے بعد اندروں ملک بڑے کاروباریوں کی ملاکنڈ ڈویژن کے علاقوں بشمول اپردیر،چترال ،سوات و دیگر میں خرید و فروخت کے کام شروع کرنےسے ہوا۔
جس سے مقامی اور ملکی سطح پر کاروبار کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اب بڑے شہروں اور بیرونی ممالک کے کاروباری افراد مقامی افراد سے مارکیٹ سے فی کلو چوبیس سے اٹھائیس ہزار روپے تک خریدتے ہیں۔ اس لئے اب یہ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ اور اسکی کی فروخت سے مقامی لوگوں کے روزگار اور سینکڑوں خاندانوں کی کفالت کا اہم ذریعہ بن گیا ہیں ۔
بالائی براول کے شہری خالد خان کا کہنا ہے کہ ہم مشروم (گوسی، گوچی) کی پہاڑوں اور دور افتادہ جنگلوں میں سخت موسمی حالات کے کھٹن مراحل سے گزر کر مشروم تلاش کرکے اکٹھا کرتے ہیں اور مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں تازہ مشروم کے ریٹس کم ہوتے ہے اس لئے ہم خود اسے گھروں کے اندر ایک یا دو ہفتے خشک کرنے کیلئے رکھتے ہیں ۔
خالد نے کہا کہ خشک کرنے کے بعد ہمیں یہ مشروم تازہ مشروم کی نسبت زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے ہیں۔ انہوں کہا کہ رواں سیزن میں پچھلے سال کی نسبت فی کلو ریٹس کم ہوئے ہے کیونکہ کاروباریوں کے مطابق عالمی مارکیٹ میں قدرتی مشروم کے ریٹس کم ہوئے ہے۔ جو کہ پچھلے سیزن میں فی کلو ۲۸ سے ۳۰ ہزار روپےمقرر تھا جبکہ رواں سیزن فی کلو ۲۲ سے ۲۴ ہزار تک فروخت ہورہا ہے۔
مقامی مشروم کاروباری افراد
دیر شہر میں مشروم کا کاروبارکرنے والے بادشاہ الدین نے ٹی این این کو بتایا کہ مشروم کا کاروبار اب ایسا ہے کہ جیسے میں کوئی سونے کا کام کرتا ہوں کیونکہ اب اس میں گذشتہ سالوں کی نسبت اتار چڑھاؤ بہت زیادہ آرہا ہے ۔ اور اسی اتار چڑھاؤ سے کبھی ہمیں فائدہ ہوتا ہے تو کبھی نقصان۔
بادشاہ الدین نے کہا کہ یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار تھا لیکن مشروم کے عالمی مارکیٹ میں ڈالر کے اتار چڑھاؤ سے استحکام نہیں رہا جس کی وجہ سے ملکی سطح پر کاروباری بھی محتاط ہونے کی وجہ سے مشروم کے ریٹس پربہت اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ اور یران میں اسکی بڑی مارکیٹ ہے جہاں مشروم کی خرید و فروخت بڑے لیول پر ہوتی ہے اور اگر وہاں مندی کا رجحان ہو، تو پھر پاکستانی مارکیٹ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ رہی سہی کسر چائنہ والوں نے پوری کردی ہے کیونکہ چائنہ اب کئی سالوں سے مصنوعی طور پر مشروم کی پیداوار اگاتے ہیں جس کے ریٹس پاکستانی مشروم سے کئی گنا کم ہے اور یورپ ک مارکیٹوں میں فروخت ہو رہے ہے۔
لیکن پھر وہاں کی مارکیٹوں میں لوگ پاکستان کے مشروم کو پسند کرتے ہیں۔ مشروم (گوسی) کو نہ صرف یورپ ،امریکہ اور ایران میں خوراک کیلئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان مشروم کو مختلف ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ہمارے قدرتی مشروم کے استعمال کا آثر زیادہ کامیاب ہے۔
سید حیکم جو دیر میں سب سے بڑے مشروم کے کاروباری ہے اور سیزن میں کئی من مشروم خرید لیتے ہیں جبکہ چھوٹے کاروباریوں کی تعداد درجنوں میں ہے،کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی اس بات پر ہے کہ اس کاروبار میں ہمارے ساتھ سینکڑوں خاندان کے ہزاروں افراد برسر روزگار ہوتے ہیں اور وہ مشروم سیزن کے تین، چار مہینوں میں اپنی محنت سے ہزاروں ،لاکھوں روپے کماتے ہیں ۔ جس سے ہمیں ذہنی سکون بھی مل جاتا ہے کہ ہمارے وجہ سے ایسے غریب خاندانوں کو اس مہنگائی اور بے روزگاری کے دور میں روزگار تو مل جاتا ہے۔
اس حوالے سے ماہرین طب کا کہنا کہ مشروم کا استعمال دنیا بھرمیں خصوصا ایشیا میں صدیوں پرانا ہے ایشیائی ممالک، پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں سمیت افغانستان ، انڈیا ،سری لنکا میں یہ عام طور پر کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ تاہم یورپ کے اندر یونان میں مشروم کا استعمال زیادہ تر میڈسن ریسرچر اور طبی سائنسدان مختلف بیماریوں کے ادویات میں استعمال کرتے آرہے ہیں مشروم کی اہمیت بڑھ جانے پر اسے کینسر، قوت مدافعت بڑھانے ، جگر اور انٹی بیکٹوریل جیسے ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔