باجوڑ ضمنی الیکشن، نثار باز کی جیت اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کی شکست
محمد بلال یاسر
ضلع باجوڑ میں حلقہ پی کے 22 پر تین بار الیکشن ہونے کے بعد حلقے کی عوام کو نمائندہ مل گیا۔ انتخابات اختتام کو پہنچ گئے ۔ اس حلقے پی کے پر جنرل الیکشن 2024 کے الیکشن اس وقت ملتوی ہوگئے جب اس حلقے کے امیدوار ریحان زیب خان کو 31 جنوری کو صدیق آباد پھاٹک چوک میں کمپین کے دوران جاں بحق کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد انتخابات ملتوی ہوگئے۔
21 اپریل کو ایک بار پھر اس حلقے پر الیکشن کا انعقاد ہوا ، جس میں ریحان زیب خان کے بھائی نے این اے 8 اور پی کے 22 دونوں سیٹیں جیتی بعد ازاں انہوں نے پی کے 22 سیٹ چھوڑ دی جس پر تیسری بار 11 جولائی کو ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار نثار باز نے 11926 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کرلی۔
سابقہ گورنر انجنیئر شوکت اللہ خان کے فرزند آزاد امیدوار نجیب اللہ خان 10622 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے عابد خان 10593 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔ سنی اتحاد کے راحت اللہ 7146 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے۔ آزاد امیدوار اخترگل 3556 پانچویں ، پاکستان پیپلز پارٹی کے عبداللہ نے 519 ووٹ لیکر چھٹے اور آزاد امیدوار نور شاہ 260 ووٹ لیکر دوسرے نمبر رہے۔
کامیاب ہونے والے امیدوار نثار باز کون ہے ؟
کامیاب ہونے والے امیدوار محمد نثار باز نے 13 جنوری 1985 کو اتمان خیل کے ذیلی قبیلے ماندل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی باجوڑ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم اور ریجنل سٹڈی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ نثار باز سکول کالج کے زمانے سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ وہ پشاور یونیورسٹی کی باجوڑ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدر، فاٹا یوتھ جرگہ ، پختون ایس ایف سمیت دیگر طلبہ تنظیموں میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ۔
نثار باز کی کامیابی کی وجوہات کیا تھیں ؟
عوامی نیشنل پارٹی کے پارٹی منشور کے مطابق نثار بازعلاقائی وسائل پر سخت موقف کے باعث عوام میں بے حد مقبول ہوگئے تھے۔ گزشتہ سال چارمنگ میں انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف تقریر کی اور علاقائی وسائل کو مقتدر قوتوں کے خلاف بولنے کے پاداش میں ان پر ایف آئی آرز درج کی گئی۔انہوں نے ہر موقع پر اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ سے کام لیا اور نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی ، یہی ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ بنی ۔
حکمران جماعت پی ٹی آئی کیوں ہاری ؟
2018 کے بعد سے ہونے والے دو صوبائی، دو جنرل اور بلدیاتی انتخابات سبھی میں پی ٹی آئی کو باجوڑ میں شکست دینا تمام پارٹیوں کیلئے تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ مگر 21 اپریل اور 11 جولائی کے اس قلیل وقفے میں ہونے والے دو الیکشن میں پی ٹی آئی نامزد امیدواران کو نہایت بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 21 اپریل کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار گلداد خان تیسرے نمبر پر رہے جبکہ 11 جولائی کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار ملک راحت اللہ چوتھے نمبر پر ہے۔ مبصرین اور آزاد ذرائع کے مطابق بنیادی وجہ پی ٹی آئی کے ضلعی قیادت کے آپس میں اختلافات ہیں ، جس کے وجہ سے دونوں مرتبہ پی ٹی آئی امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ، دونوں دفعہ ہی پی ٹی آئی کے ورکر پارٹی امیدوار اور آزاد امیدوار کے درمیان تقسیم ہوگئے تھے ۔
یہ الیکشن نہایت خوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا اور عوام نے مادیت اور زور زبردستی کی بجائے اپنی خواہش پر امیدوار کو منتخب کیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ نثار باز عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔