حکومت کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود سینکڑوں سرکاری سکول چھتوں سے محروم
آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا میں 516 سرکاری سکول چھت سے محروم ہیں جسکے باعث ہزاروں طلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے ضم قبائلی اضلاع میں 172 سکول چھت سے محروم ہیں جبکہ بندوبستی اضلاع میں 344 سکولوں میں طلبہ کو چھت میسر نہیں۔ چھت سے محروم سکولوں میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکول شامل ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ضم اضلاع میں چھت سے محروم سکولوں میں 138 طلبہ اور 34 طالبات کے ہیں۔ لوئر کوہستان میں 76، کولائی پالس میں 50 لڑکوں کے سکولوں کی چھت نہیں۔ بٹگرام میں 34، ڈیرہ اسماعیل خان میں 31، دیر بالا میں 22، مانسہرہ 17، شانگلہ 4 اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں 2 سکول بغیر چھت کے قائم ہیں۔
اسی طرح قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان میں 13، ضلع خیبر میں 26، اورکزئی میں 23، ضلع مہمند میں 8 سکول بغیر چھت کے قائم ہیں۔ اسی طرح صوبے کے بندوبستی اضلاع میں 489 سکول کرائے کی عمارتوں میں بھی قائم ہیں جن میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکول شامل ہیں۔ بغیر چھت کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
اسی حوالے سے ذین العابدین، شیر علی، ذیشان احمد، کامران علی و دیگر کئی والدین نے ٹی این این کو بتایا کہ صوبائی حکومت کو چاہئیے کہ فوری طور پر بغیر چھت کے سکولوں میں پڑھنے والے ہزاروں بچوں کیلئے چھت کا انتظام کیا جائے جیسا کہ خیبر پختونخوا میں گرمی میں شدید گرمی اور سردیوں میں سخت سردی رہتی ہے۔ اسی طرح طوفان، بارش، تیز ہواؤں کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے تو ایسے میں ان بچوں کو دوران پڑھائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رابطہ کرنے پر ماہر تعلیم و سابق ڈین پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر یاسین اقبال نے ٹی این این کو بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں نہیں رہا ورنہ آج خیبر پختونخوا میں ان سکولوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسین اقبال کا کہنا تھا کہ جہاں حکومت کی کوتاہیاں ہیں تو ایسے میں معاشرہ بھی اسکا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ بچے جو بغیر چھت کے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو اس پر انکے والدین کیوں خاموش ہیں۔ وہ علاقے جہاں سول سوسائٹی کی مختلف تنظیمیں بنائی گئی ہیں یا نوجوانوں کی تنظیمیں بھی تو وہاں ان جیسے ایشوز کو ضرور ہائی لائٹ کیا جاتا ہے لیکن صوبے کے کئی علاقوں میں خاموشی بھی ہے۔ اسلئے پھر تو سکولوں کی یہی حالت رہنی ہی ہے۔
سکولز آفیسرز ایسوی ایشن خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر سمیع اللہ خلیل کہتے ہیں کہ تعلیم و صحت زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ جہاں صوبے کے بچوں کیلئے پڑھنے کیلئے سکول چھت نہ ہونے کی بات ہے تو ایسے میں اساتذہ کو ٹینٹ، درخت کے نیچے بٹھانے یا دیگر انتظام خود کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں بچوں کی پڑھائی پر اچھے اثرات نہیں پڑتے اور اساتذہ کی پڑھائی کا نظام بھی متاثر ہو جاتا ہے لہذا یہ حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چھت سے محروم تمام سکولوں میں چار دیواری، پانی، چھت، بجلی، فرنیچر جیسے ضرویات کو فوری طور پر پورے کئے جائیں۔
سمیع اللہ خلیل کہتے ہیں کہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے سے بچوں کی حصول تعلیم کا بنیادی مقصد پورا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ پورے نظام تعلیم میں بچہ ایک مرکزیت کی حثیت رکھتا ہے۔ بچہ پڑھے تو انکے لئے استاد کو بھرتی کیا جاتا ہے، تعلیم کا شعبہ ہو یا وزارت کا لہذا سارا دارومدار ہی بچے پر ہے تو ایسے میں بہتر تعلیم دلوانے کیلئے بچے ہی کو تمام تر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنے ہونگے۔
اسی حوالے سے حکومتی موقف جاننے کے لئے حکومتی افسران اور منسٹر سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود بھی کوئی جواب نہ ملا۔