آسمان کو چھوتی پرائیویٹ سکولز کی فیسیں، مگر بچوں کی سیکیورٹی ندارد
سوات کی تحصیل مٹہ میں نجی سکول کی چھت گرنے سے چھ بچے زخمی، ضلعی انتظامیہ نے سکول کی عمارت سیل کر دی۔
رفیع اللہ خان
سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقے ٹانگار سیرئی میں نجی سکول کی چھت گرنے سے چھ بچے زخمی ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے عمارت کو ناقابل استعمال قرار دیتے ہوئے سیل کر دیا ہے۔
تحصیل مٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالقیوم نے مٹہ کے علاقے ٹانگار سیرئی میں قائم نجی سکول نیو سٹینڈر پبلک سکول کی عمارت کو بوسیدہ قرار دیتے ہوئے سکول کو سیل کرکے واقعہ کی انکوائری شروع کر دی ہے۔
پولیس کے مطابق نجی سکول میں طلباء کی کلاسیں جاری تھی کہ سکول کی عمارت بوسیدہ ہونے کے باعث کلاس نرسری کے کمرے کی کچی چھت اچانک گر گئی جس میں موجود 19 بچوں میں چھ بچے ملبے تلے دب کر شدید زخمی ہوگئے۔ مقامی لوگوں اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے انہیں ملبے سے نکال کر فوری طبی امداد کے لئے مٹہ کے ذاکر خان شہید ہسپتال منتقل کیا۔ ریسکیو 1122 کے مطابق بچوں کی عمریں پانچ سے چھ سال تھی۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی اسسٹنٹ کمشنر مٹہ عبدالقیوم اور پولیس موقع پر پہنچ گئے، اسسٹنٹ کمشنر نے محکمہ سی این ڈبلیو کے انجینئرز کو طلب کیا جس کی رپورٹ کے مطابق عمارت کو ناقابل استعمال قرار دیا گیا ہے جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر نے پولیس کے ہمراہ سکول کو سیل کر دیا اور باقاعدہ انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ٹی این این نے سکول کے مالک و پرنسپل کریم زادہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارے پاس ایک اضافی حال تھا جس میں اساتذہ بچوں میں ورک بکس تقسیم کر رہے تھے کہ اسی اثناء چھت کی بش ٹوٹ گئی، انہوں نے بتایا کہ 2017 میں ان کا سکول مڈل رجسٹرڈ ہوا تھا جس میں کل تعداد 180 ہے جس میں بچے اور بچیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔
سکول پرنسپل نے بتایا کہ یہ عمارت علاقے کے لوگوں نے دی ہے کیونکہ یہاں سے سرکاری سکولز دو سے تین کلو میٹر دور ہے اور راستے میں ندی بھی آتی ہے جہاں پل بھی نہیں ہے اس لئے مقامی لوگوں کی اصرار پر یہاں بچوں کی سہولت کے لئے یہ سکول قائم کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ علاقے میں جتنے بھی گھر آباد ہے ان سے کئی زیادہ ان کے سکول کی عمارت بہترین سٹرکچر میں ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر نے عمارت کو اس لئے سیل کیا کہ آئندہ ایسا ناخواشگوار واقعہ رونماء نہ ہوجائے۔
کریم زادہ نے بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر نے انہیں عمارت دوسری جگہ شفٹ کرنے کا کہا ہے اور بتایا ہے کہ جب آپ دوسری عمارت میں شفٹ ہو جائے گے تو میں آپکا سکول ڈی سیل کر دونگا جس پر ان سے اتفاق ہوا ہے کیونکہ ہمیں بھی اپنے بچوں کی جانیں عزیز ہے اور ان کے خاطر ہم نئی عمارت دیکھ رہے ہیں۔
کریم زادہ نے مزید بتایا کہ ( پی ایس آر اے ) سالانہ دس ہزار روپے ان سے رینیول فیس وصول کرتے ہیں لیکن اس کے بدلے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔
پرائیوئٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی ( پی ایس آر اے ) خیبر پختونخوا میں نجی سکولوں کی رجسٹریشن، ریگولیشن اور نگرانی کے لئے ایک اتھارٹی ہے جسکا 2017 میں ایکٹ پاس ہوا تھا جنہوں نے 2018 سے باقاعدہ کام شروع کیا ہے۔
پی ایس آر اے کا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ وہ نجی سکولوں کی رجسٹریشن کریگی اس کے لئے وہ متعلقہ ادارے کی عمارت، کلاسیز، لیب، کوالیفائیڈ ٹیچرز، صاف پینے کا پانی، پلے گراونڈ اور بجلی کی سہولیات کا جائزہ لے گی اگر وہ ان کے دئے گئے فریم ورک کے مطابق ہو تو اس ادارے کی رجسٹریشن کی جائے گی۔اس طرح پی ایس آر اے ان اداروں کی ریگولیشن اور نگرانی بھی کریں گے۔
پی ایس آر اے کے اعدادو شمار کے مطابق سوات میں ایک ہزار سے زائد نجی سکولز پی ایس آر اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہے جس سے وہ سالانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اتھارٹی جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے کیا وہ اپنا کام صحیح طریقے سے سر انجام دے رہی ہے؟
اگر جواب ہاں ہے تو پھر مٹہ ٹانگار میں قائم اس سکول کے خلاف وقت پر کاراوئی کیوں یقینی نہیں بنائی جا سکی ؟
ذرائع کے مطابق سوات میں ایسے بے شمار نجی سکولز موجود ہے جو (پی ایس آر اے) کے سٹیڈر پر پورا نہیں اترتے اور بعض سکولوں کی عمارتیں ایسی بوسیدہ اور ناکارہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کیا ( پی ایس آر اے ) اور ضلعی انتظامیی کو کسی بڑے سانحے کا انتظار ہے جس کے بعد وہ ایکشن لیں گی جس طرح مٹہ واقعہ کے بعد ضلعی انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر سکول کو واقعہ کے بعد سیل کر دیا جبکہ ( پی ایس آر اے ) نے متعلقہ سکول پر جرمانہ عائد کرکے اپنا ذمہ فارغ کر دیا؟
اس حوالے سے ٹی این این نے (پی ایس آر اے ) کے کئی اہم ذمہ داروں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے موقف نہیں دیا ایک اسٹنٹ ڈاریکٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے مٹہ تحصیل کا ویزٹ کیا تھا جس میں 13 سکولوں میں سہولیات کی کمی تھی۔ جب ان سے ضلع کے بارے میں پوچھا گیا کہ ضلع سوات میں کتنے سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سوات تو ونٹر زون ایریا ہے نجی سکولوں کی تو یکم جولائی سے 31 جولائی تک چھٹیاں ہے پھر یہ سکول کیوں کھلا تھا یہ بھی خلاف قانون ہے اور ایسے کیسز میں انہوں نے پشاور میں کئی سکولوں کو ایک دن کھولنے پر فی سکول 30 ہزار روپے فی دن جرمانہ عائد کیا ہے، انہوں نے رپورٹر کو مشورہ دیا کہ ضلعی انتظامیہ کو بتایا جائے کہ اس سکول کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ جب رپورٹر نے ان سے پوچھا کہ سکولوں سے لاکھوں، کروڑوں روپے سالانہ آپ وصول کرتے ہیں آپ کی کیا ذمہ داری ہے تو موصوف نے فون ہی بند کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے بھی نجی سکولوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ بھاری بھرکم فیسیں لینے والے نجی سکولوں کے خلاف ایکشن لیا جائے جو بچوں کو سہولیات نہیں دے سکتے پھر اتنے فیسیں کیوں لیتے ہیں؟ صارفین نے کہا ہے کہ نجی سکول چلانا ایک بہترین کاروبار بن چکا ہے اس پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئیں۔