پشاور، برطرف زرعی افسران کا حکومتی فیصلے کے خلاف تیسرے دن بھی احتجاج جاری
مصباح اتمانی
"کہتے تھے لوگوں کو روزگار دیں گے، الٹا ہم سے روگار چھین لیا” یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے زرعی افیسر فواد داوڑ کا جو شدید گرمی میں صوبائی اسمبلی کے سامنے پچھلے تین دنوں سے جاری احتجاجی دھرنے میں شریک تھے.
انہوں نے کہا کہ 2022 میں وزیراعلی محمود خان نے زرعی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت 180 زرعی افیسرز کو بھرتی کیا، اس منصوبے کا کل بجٹ 3 ہزار ملین روپے تھا لیکن اس میں سے صرف 450 ملین روپے خرچ ہوئے جس کے بعد صوبائی حکومت نے اس منصوبے کو اے ڈی پی سے ڈراف کیا اور ان 180 زرعی افیسرز کو فارغ کیا۔
فواد داوڑ کے مطابق ان 180 افسران میں 50 فیصد پی ایچ ڈی جبکہ 50 فیصد ایم فل اسکالرز ہے، انہوں نے بتایا کہ اس نوکری کے لیے زیادہ تر امیدواروں نے نوکریاں چھوڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ختم کرنے سے پہلے کسی سے نہیں پوچھا گیا اور فنڈ نہ ہونے کا کہہ کر ہمارے مستقبل کو داو پر لگا دیا، فواد نے بتایا کہ اپ کہتے ہیں ہم لوگوں کو روزگا دیں گے اور یہاں الٹا ان کے روزگار چھین رہے ہیں۔
احتجاج میں شریک خاتون زرعی افیسر نادیہ خان نے بتایا کہ اس پراجیکٹ میں 25 فیصد خواتین ملازمین تھیں، اس منصوبے کے زریعے زمینداروں کو جدید طریقے سیکھائے جاتے تھے جس سے زرعی پیداور میں اضافہ ہوتا تھا، ہم خواتین کے گھروں میں جاتی تھیں اور ان کو زراعت کے حوالے سے اگاہی دیتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس پراجیکٹ کو ختم کیا گیا تو نہ صرف زراعت کو شدیس نقصان پہنچے گا بلکہ 180 خاندانوں کو روزگار اور ان کے بچے بھی متاثر ہوں گے۔
زرعی افیسر فواد داوڑ نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان کی مطالبات پر غور کریں اور آئی سی ٹی پروجیکٹ کو واپس ADP 2024-25 میں شامل کریں، پراجیکٹ ایکسٹنشن کی نوٹیفکیشن کریں اور ایمپلائز کی کنٹریکٹ کی ریونیول کریں۔
یاد رہے کہ اس پراجیکٹ کا آغاز عمران خان نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بطور وزیراعظم خود کیا تھا۔ جس میں 188 ایگریکلچر آفیسرز کو کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور ان کے پیداوار بڑھانے کے لئے بھرتی کئے گئے تھے۔