موسمیاتی تغیر; پشاور کے رسیلے آلوچے بھی متاثر
کیف آفریدی
پشاور سے 24 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع باغ بنان علاقے میں مشہور آلوچے کے باغات ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے موسمیاتی تغیر کی وجہ سے اس کی پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ کہتے تھے کہ پشاور کے یہ آلوچے اپنی مٹھاس کی وجہ سے سوات کے بعد دوسرے نمبر پرتھے لیکن ژالہ باری، تیز آندھی اور معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے ان باغات کو نقصان ہوتا ہے جس سے انکی پیدوار میں ہر سال کمی ہوتی جارہی ہے۔
پشاور کے یہ آؒلوچے پہلے وقتوں میں نہ صرف ملک کے دوسرے صوبوں بلکہ افغانستان اور عرب ممالک کو بھی برآمد کیا جاتا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلی نے آؒلوچے کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پچھلے تیرہ سال سے آلوچوں کا کام کرنے والے ٹیلا بند کے رہاشی باغبان عمران اللہ کا کہنا ہے کہ عموما آلوچے مئ کےآخر میں جبکہ زیادہ تر باغات میں جون کے مہنے میں مکمل پک جاتے ہیں۔ فروری سے باغات کو پانی مہیا کیا جاتا ہے جبکہ مارچ کے مہینے میں ہر آلوچے کے درخت کی سائیڈز کو یوریا ڈالتے ہیں۔ اسی طرح جون کے مہینے تک انکو ہم مسلسل پانی دیتے ہیں۔ جون مہینہ شروع ہوتے ہی پھر اس پر پانی بند کیا جاتا ہے۔
عمران اللہ کہتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں کے مقابلے میں اس سال آلوچے کی پیداوار میں تھوڑی کمی آئی ہوئی ہے کیونکہ اس سال انکے باغ سے پندرہ سو سے لیکر اٹھارہ سو تک آلوچے کے کاٹن بنے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بارشیں تو آلوچوں کے باغات کے لیے مفید ہیں لیکن معمول سے زیادہ بارشیں پھر نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ کہ آلوچے یہ بارش کا پانی اپنے اندر جذب کرتے ہیں جس سے یہ پھٹ جاتے ہیں اور یوں آلوچہ خراب ہو جاتا ہے۔
اسی طرح آگر تیز آندھی آجائے تو وہ باغات کو کافی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ان سے پکے آلوچے درختوں سے زمیں پر گر جاتے ہیں جو کہ تقریبا ختم ہونے کے برابر ہیں۔ عموما مئ اور جون کے مہینوں میں تیز آندھی اور ژالہ باری آلوچے کے باغات کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت آلوچے پکے ہوتے ہیں۔
عمران اللہ کہتے ہیں کہ بیوپاری جو باغات کو لاکھوں اور کروڑوں روپوں کے عوض خرید لیتے ہیں تاہم جب مئ اور جون کا مہینہ آتا ہے تو ژالہ باری، تیز آندھی، معمول سے زیادہ بارشیں یا درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے باغات کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے بیوپاریوں کو لاکھوں روپوں کا خصارہ پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جو کہ ہمیں دیکھائی نہیں دیتا لیکن وہ ان آلوچے کو کاٹتا ہے جس سے آلوچے میں پھوڑ قسم کا بن جاتا ہے تو یہ بھی ان کے اثرات میں شامل ہے۔ حالانکہ شروع میں ہی باغات پر اس خاص مچھروں سے بچنے کے لیے اسپرے وغیرہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کچھ مچھر اور دیگر حشرات وغیرہ سے آلوچے کو نقصان پہنچاتے ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں باغات کو پانی نہ ملنے کی وجہ سے اسی طرح آلوچے کی پیداوار پر برا اثر پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ جس نہری پانی سے باغات سیراب ہوتے ہیں وہ پانی زیادہ تر آلودہ ہوتا ہے جس سے باغات کے بعض درخت خشک ہو جاتے ہیں اور وہ پھل دینے کے قابل نہیں ہوتے۔ کیونکہ پہلے باغبانان میں خوبانی کے باغات بھی زیادہ ہوا کرتے تھے تاہم مناسب پانی کا نہ ملنا اور موسمیاتی تغیر کی وجہ سے وہ ختم ہوئے ہیں۔ اسی طرح اب آلوچے کے باغات پر بھی اثر پڑ رہا ہے اور ہر سال انکی پیداوار میں کمی آرہی ہیں۔
عمران اللہ کے مطابق اگر زرعی ڈیپارٹمنٹ والے اس علاقے کی مٹی کا مشاہدہ کریں تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ مٹی کس پھل کے لیے مناسب ہیں تاکہ وہ کاشت کی جائے تو بہتر ہو گا۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آؒلوچے کی پیدوار میں کتنی کمی آئی ہے؟
خیبر پختونخوا میں زراعت پر کلائمیٹ چینج کے اثرات واضح ہیں۔ صوبے کے زرعی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چار سالوں میں آلوچوں سمیت دیگر پھلوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں 25176 ٹن آؒلوچے کی پیداور ہوئی تھی جو کہ سال 2023 میں کم ہوکر 23300 ٹن تک آگئی ہے، اسی طرح خوبانی، آڑو اور انگور کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہیں۔
کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق صوبے میں 2022 سیلاب کے بعد 2023 گرم ترین سال رہا جس کی وجہ سے زرعت پر منفی اثرات ہوئے، جبکہ سال 2024 کا شمار بھی گرم ترین سالوں میں کیا جار ہا ہے، محکمے کے مطابق عالمی درجہ حرارت کے اضافے کی بدولت رونما ہونے والے شدید موسمی واقعیات نا صرف فصلوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ماحول میں ایسے زہریلے حشرات کا اضافہ ہو جاتا ہے جس سے فصلوں پر بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی خوراک اور زرعی ادارے فوڈ اینڈ ایگریلکچر ارگنازیشن) کی 2024 رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے خورک اور زراعت سنگین خطرے سے دوچار ہے، کلائمیٹ چینج کے مسئلے کا فوری حل اور زراعت اور خوراک کے نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کوششیں تیز کرنا ہوگی۔ ادرے نے واضح کیا ہے کہ گرمی کا دباؤ پھلوں کی پیداور اور معیار کو کو کم کرتا ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پاکستان کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والہ صوبہ ہے پچلھے 3 سالوں میں شدید موسمی واقعیات میں اضافے سے ہر سال فصلوں کی پیداور میں کمی رونما ہو رہی ہے، کراپ رپورٹنگ سروسز کے مطابق صوبے کی زراعت کلائمیٹ چینج کی زد میں ہے اور فوڈ سیکورٹی کا خطرہ بڑھ گیا ہے، دوسری جانب پچھلے 10 سالوں میں 3 لاکھ ہیکٹیرز سے زیادہ زرعی زمین آبادی کے بڑھنے اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے کاشت کے قابل نہیں رہی۔
بین الاقوامی ادارے اور خاص کر آئی پی سی سی وغیرہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا بلخصوص پاکستان میں کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کا اثر اور بھی بڑے گا جیسے کہ گرمی کا دورانیہ زیادہ ہونا یا معمول سے زیادہ بارشیں ہونا اس میں شامل ہے۔