سانحہ مدین- کسی بھی فرد، یا گروہ کو شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر کسی بھی شخص کو سزا دینے کی اجازت نہیں۔مفتی ڈاکٹر شوکت علی
رفاقت اللہ رزڑوال
مدین واقعہ کے بعد بہت سے بیانات اور رخ سامنے آئے ہیں مگر اس واقعہ کے بعد کئی سوالات نے جنم بھی لیا ہے اور بہت سے موقف بھی سننے کو ملے ہیں۔
ملک کے بیشتر مختلف مذہبی سکالرز نے سوات واقعے کی مذمت کے ساتھ اسے ایک گھناؤنی اور ماورائے آئین اقدام قرار دیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے دینی مدرسے جامعہ حقانیہ کے استاد مفتی ڈاکٹر شوکت علی نے سوات واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ یہ انتہائی گھناؤنا فعل ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی فرد، یا گروہ کو شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر کسی بھی شخص کو سزا کی اجازت نہیں۔
ڈاکٹر شوکت نے کہا کہ بہت سے معاملات میں عدالتیں کیسز کو صحیح طور پر منطقی انجام تک نہیں پہنچاتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سوات، سرگودھا، جڑانوالہ اور سیالکوٹ کا عمل کسی طرح شرعی سمجھا جائے”۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی کمیشن (ایچ آر سی) نے حکومت سے سوات کے مدین علاقے میں مبینہ طور پر توہین قرآن کے جرم میں ملوث شخص پر بیشتر افراد کی جانب سے تشدد اور انہیں زندہ جلانے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے فوری طور پر اقدامات اُٹھائے جائیں۔
ایچ آر سی پی نے ہفتے کے روز جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے کم عرصہ کے دوران دو ایسے واقعات جن میں سوات میں چالیس سالہ سلیمان اور صوبہ پنجاب کے سرگودھا میں نذیز نامی شخص کی ہلاکتیں اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ "ریاست نے عقیدے کے نام پر بلوائیوں کی جانب سے تشدد کے معاملات پر ارادی طور پر یا دیگر وجوہات کی بناء پر چپ سادھ لی ہے”۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے اِس قسم کے واقعات اب صرف بعض بُرے قوانین کا معاملہ نہیں رہا جنہیں توہینِ مذہب کے نام پر آسانی سے بطورِ ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ، یہ کئی عشروں سے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں اور شدت پسندی کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور اُن کی آبیاری کرنے کی پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ ریاست اِس جرم میں براہ راست شریک ہے۔ اس نے عقیدے کے نام پر تشدد کرنے والے لوگوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے اور اس طرح کے واقعات کی صورت میں جہاں فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں راہ ِفرار اختیار کر لیتی ہے
انسانی حقوق کی کمیشن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ” ایوان میں عام لوگوں کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے پر غور نہ کرنا افسوسناک ہے”۔ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے "معاشرے میں عقیدے کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے والے بڑھتی ہوئی رجحان کے خاتمے کیلئے ممکنہ کوششیں کریں”۔
قانونی ماہرین بھی عوامی تشدد کو غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی بھی الزام میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے ٹی این این کو بتایا کہ سوات میں پرتشدد واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ ایسے گھناؤنی فعل سے ملک میں انارکی پیدا ہوتی ہے مگر سوات واقعے جیسے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں ریاست مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔
شبیر حیسن کا کہنا ہے "اگر مردان میں مشال قتل کیس کو دیکھا جائے، چارسدہ میں درجنوں پولیس چوکیوں پر حملے کو دیکھا جائے یا سوات میں ایک شہری جو پولیس کے سامنے مارا گیا، تو ان سب واقعات میں ریاست ناکام نظر آئی ہے اور جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا”۔
وکیل شبیر حسین کہتے ہیں "اگر کوئی یہ موقف اختیار کرے کہ ادارے انصاف نہیں دیتے اور انہیں حق ہے کہ خود اپنی عدالت لگائیں تو نہ صرف یہ قانوناً بلکہ شرعاً بھی جرم ہے کیونکہ جس میں ملک میں آپ رہتے تھے تو شریعت کا حکم ہے کہ اسی ملک کے قانون کا احترام کریں گے”۔
"ہمارے ملکی قوانین اسلام کے دائرے کے اندر بنائے گئے ہیں کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ایسے قوانین کا نفاذ ممکن ہی نہیں جو غیر شرعی ہو”۔
حکومت نے تاحال انسانی حقوق کی کمیشن پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے مگر گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے اقلیتوں کی تحفظ کیلئے قرارداد پیش کی ہے جسے متفقہ طور پر منظور کر دیا گیا ہے۔ قرارداد میں مطالبہ ہوا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اقلیتوں کی تحفظ اور ان کے خلاف تشدد کرنے والے عناصر کے خلاف کاروائی کریں۔
یاد رہے کہ 20 جون صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سلیمان نامی شخص پر مشتعل افراد نے مبینہ طور پر قرآن پاک جلانے کے الزام میں زندہ جلایا تھا۔
مدین پولیس نے واقعے میں ملوث 2000 سے 2500 افراد کے خلاف دفعات 302، 324، 341، 427، 436، 186، 148، 149 اور 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے، جن میں 49 افراد براہ راست نامزد کئے گئے ہیں، پولیس نے 23 افراد تاحال گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔
میڈٰیا رپورٹس کے مطابق واقعے کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے تحقیقات کا دورانیہ کیا ہوگا۔
اسی طرح 25 مئی کو صوبہ پنجاب کے سرگودھا کے علاقہ مسیحی برادری کے مجاہد کالونی پر مشتعل مظاہرین نے حملہ کرکے موقف اختیار کیا تھا کہ نذیر مسیح نامی شخص نے مبینہ طور پر قرآن پاک کی توہین کی ہے جس پر انہیں تشدد کرکے قتل کیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور نے سوات واقعے کا نوٹس لیا ہے جس میں صوبے کے آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔