میوزک سیکھنے میں کیا بری بات ہے؟
تحریر: رعناز
کچھ دنوں پہلے میں ایک ڈیجیٹل رپورٹ بنا رہی تھی۔ وہ رپورٹ پشاور میں قائم ایک میوزک سکول پر تھی۔ جہاں پر ہر عمر کے لوگ آتے ہیں اور میوزک کی کلاسز لیتے ہیں۔ اس میوزک سکول میں لوگوں کو میوزک سکھایا جاتا ہے۔ جیسے کہ دھن بنانا یا کوئی اور میوزکل سکل۔ اسکول میں پریکٹیکل کام کے ساتھ ساتھ میوزک لٹریچر بھی پڑھایا جاتا ہے۔
اس سکول کو دیکھ کر مجھے کافی خوشی ہوئی کہ ہمارے خیبرپختونخوا میں بھی اب میوزک کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ لوگ اس مہارت کو سیکھنے کے شوقین ہیں۔ کیونکہ اور ممالک میں تو میوزک کلاسز یا میوزک سیکھنا تو عام سی بات ہے۔ نہ صرف عام بات بلکہ وہاں پر میوزک کو باقاعدہ مضمون مانا جاتا ہے۔ اور مضامین کی طرح میوزک کا بھی باقاعدہ سیلیبس موجود ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک اور خصوصا ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ چیز بالکل بھی موجود نہیں ہے۔
اس میوزک سکول میں، میں نے ایک عجیب بات نوٹ کی جو میرے آج کے بلاگ کا عنوان بھی ہے۔ ادھر جب میں ڈیجیٹل رپورٹ بنا رہی تھی تو میوزک کے سارے سٹوڈنٹس مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ برائے مہربانی ہمارے چہرے کیمرے میں نہ لے کے آئیں۔ آپ ویڈیو کلپس پیچھے سے بنائیں کہ ہمارے چہرے اس میں نظر نہ آئے۔ خیر اس ٹائم تو میں نے ان کی بات مان لی۔ رپورٹ مکمل کرنے کے بعد میں نے ان سٹوڈنٹس سے وجہ پوچھی کہ آپ لوگ اپنے چہروں کو کیوں چھپانا چاہ رہے تھے۔ ان کے جواب نے مجھے کافی حیران کر دیا۔
آئیے آپ کو بھی بتاتی ہوں کہ ان کا جواب کیا تھا۔ وہ سٹوڈنٹس کہہ رہے تھے کہ میوزک سیکھنا ہمارا شوق ہے اس لیے ہم ادھر سیکھنے آتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں میوزک سیکھنے کو بہت غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اپنی شناخت کو اس رپورٹ میں چھپانا چاہ رہے تھے ۔کیونکہ پھر باہر سوسائٹی کے لوگ ہم پر انگلی اٹھائیں گے۔ ہمارا مذاق اڑایا جائے گا کہ یہ دیکھو اعلی اعلی عہدوں پر فائز لوگ ادھر ناچ گانا سیکھ رہے ہیں۔
مزید ان سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ میوزک سیکھنا ہمارا شوق ہے۔ باقی ہم مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں اس لیے ہم کیمرے کے سامنے آنا نہیں چاہ رہے تھے۔ کہ ایسا نہ ہو پھر لوگ ہمارے پیچھے باتیں کریں اور ہمارا امیج لوگوں کے سامنے خراب ہو۔
ادھر میں ایک سوال کرنا چاہوں گی کہ آخر میوزک سیکھنے میں بری بات ہے کیا؟ اس میں کچھ بھی برا نہیں ہے۔ جیسے انسان کے اور شوق ہو سکتے ہیں بالکل اسی طرح میوزک سیکھنا بھی ایک شوق ہے جس میں کوئی بھی برائی نہیں ہے۔ میں نے ایسے بہت سارے لوگ دیکھے ہیں جن کا کہنا ہوتا ہے کہ ہمیں میوزک بہت زیادہ پسند ہے ۔ہمیں میوزک سننا بہت اچھا لگتا ہے ۔مگر بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کہ میوزک سننے کے ساتھ ساتھ اسے سیکھنا بھی پسند کرتے ہیں۔ لیکن صرف اور صرف معاشرے کے پریشر سے نہیں کر پاتے۔ لوگوں کی باتوں کی وجہ سے میوزک نہیں سیکھ پاتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بس صرف لوگوں کی باتوں کی وجہ سے وہ اپنے شوق کو پورا نہیں کر پاتے۔
میں نے یہ چیز خود اپنے معاشرے میں نوٹ کی ہے کہ لوگ میوزک کے شوقین لوگوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ نہ صرف ان لوگوں کو بلکہ میوزک ٹیچرز کو بھی عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اور تو اور ان کو طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں کہ یہ تو گانا بجانے والے ہیں۔ یہ بالکل فارغ لوگ ہیں۔ ان کا اور کوئی کام نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے معاشرے اور ہم لوگوں کی یہ سوچ سراسر غلط ہے۔ جس طرح لوگ زندگی کے اور شعبہ جات میں جا سکتے ہیں بالکل اسی طرح میوزک کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی بھی غلط بات نہیں ہے اور نہ ہی صحیح اور غلط کا فیصلہ معاشرے کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہر کسی کا انفرادی فیصلہ ہونا چاہیے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔