پاکستان میں آنے والا دور صحافیوں کیلئے مزید مشکل ہوگا؛ مبصرین
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان میں آزادی صحافت پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران میڈیا کی آزادی کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ جن میں صحافیوں کو ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے دھمکیاں اور ریاست کی جانب سے 200 سے زائد صحافیوں اور بلاگرز کے خلاف مقدمات درج کرنا شامل ہیں۔
ہر سال تین مئی کو دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق اور تحفظ کا دن منایا جاتا ہے تاہم مبصرین کے مطابق رپورٹ میں درج کردہ حقائق سامنے آنے سے آزادی اظہار رائے کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں صحافیوں کے خلاف کاروائیوں میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
خیبرپختونخوا میں فریڈم نیٹ کے صوبائی رابطہ کار و سینئر صحافی گوہر علی خان نے ٹی این این کو بتایا کہ فریڈم نیٹ ورک نے اپنے کارکن صحافیوں کے ذریعے 23 مئی سے 23 اپریل تک سالانہ ڈیٹا جمع کیا ہے جس میں صحافیوں کے حقوق، تشدد، دھمکیوں، مقدمات اور دیگر مسائل کا جائزہ لیا ہے۔
سینئر صحافی گوہر علی خان کہتے ہیں اگر رپورٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس سال مئی اور اپریل میں تین ہفتوں کے دوران چار صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے جن میں دو کا تعلق صوبہ پنجاب اور دو کا صوبہ سندھ سے ہیں۔ جبکہ ایک سال میں 104 صحافیوں کے خلاف قتل، اقدام قتل، اغواء اور ہراسانی کے الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں ‘تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہے’۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں جولائی 2023 میں پی ڈی ایم کی حکومت میں پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن اور ای سیفٹی بلز منظور ہونے اور آنے والے ہفتوں میں اس پر ہونے والی قانون سازی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
گوہر علی خان کہتے ہیں ” انہیں ان بلز پر اسلئے تشویش ہے کہ اگر اسے قانونی شکل دی گئی تو یہ ان صحافیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوگی جو سوشل میڈیا کیلئے صحافتی مواد بناتے ہیں کیونکہ اس کے تحت ایک اتھارٹی قائم ہوگی اور وہ صحافیوں کے خلاف بننے والے مقدمات کے فیصلے کریں گے، یہ ایک خطرناک عمل ہوگا”۔
گوہر علی صحافیوں کے خلاف حکومتی، ریاستی اور سماجی رویوں کو دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں ‘کہ پاکستان میں آنے والا دور صحافیوں کیلئے مزید مشکل ہوگا’۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے "مئی 2023 سے اپریل 2024 تک معاشی عدم استحکام، پولرائزیشن اور گورننس کے تین حکومتیں دیکھیں جن کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ تنیوں حکومتوں کے سب سے طاقتور اور ریاستی شخصیات نے آن لائن اختلاف رائے اور آزادی اظہار کی حد کو کم کرنے پر خطرناک اتفاق رائے پیدا کیا ہے”۔
تاہم مبصرین پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور ان کو ہراساں کرنے میں فریڈم نیٹ کی رپورٹ کی تائید اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کیلئے بننے والے قوانین میں صحافیوں کی رائے شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں مقیم انگریزی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سنیئر صحافی حق نواز خان کہتے ہیں کہ حکومتی، ریاستی اور معاشرتی سطح پر صحافیوں اور بلاگرز کیلئے فضاء دن بدن سکڑتا جا رہا ہے جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے ٹی این این این کو بتایا "مشکل یہ ہے کہ یہاں پر تنقید برائے اصلاح بھی ریاست، حکومتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں برداشت نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی سوشل میڈیا کے بعض مواد سے اختلاف ہیں لیکن اگر کوئی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر تنقید کرے تو اسے برداشت کرنا چاہئے”۔
حق نواز کا کہنا ہے "میڈیا کا کردار عوام اور حکومت کے درمیان ایک پُل جیسا ہے جو عوام کو حکومتی پالیسیوں اور حکومت کو عوام کے مسائل سے آگاہ رکھتی ہے، پھر اگر ان پالیسیوں پر شہری تنقید کرے اور اسکے ردعمل میں ان کے خلاف کاروائیاں کی جائے تو اسے جمہوری حکومت نہیں کہا جاسکتا”۔
اسی طرح پشاور میں مقیم سینئر صحافی عارف یوسفزئی کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف کاروائیاں کرنا کوئی نئی بات نہیں اور انہوں نے اپنی صحافتی دور میں کئی دوستوں کی شہادت اور تشدد کے واقعات دیکھے ہیں۔
یوسفزئی کہتے ہیں "مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر حکومت خودمختار یا عوامی خواہشات کے مطابق نہیں بنتی اور ‘بدعنوان حکمران’ خود کو بچانے کیلئے میڈیا پر پابندیوں کا سہارا لیتے ہیں”۔
یوسفزئی پاکستان کی ‘تباہی’ کا زمہ دار سوشل میڈیا کا بے لگام ہونا سمجھتے ہیں مگر ساتھ اس کو ریگولیٹ کرنے کیلئے بننے والے قوانین کی بھی حمایت کرتے ہیں تاہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قوانین کے بنانے میں صحافیوں کا رائے شامل کیا جائے۔
عارف کا کہنا ہے ” حکمرانوں کو اپنی مرضی کے قوانین لانے کیلئے بھی نہیں چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ان پر ہمیں یقین نہیں ہے ورنہ وہ خود کو بچانے کیلئے قانون سازیاں کریں گے”۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ پر تاحال پاکستان کی حکومت نے کوئی ردعمل نہیں دیا ہے تاہم حکومت کا مسلسل یہی موقف رہا ہے کہ ‘ریاست پہلے اور سیاست بعد میں’ اگر سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے سربراہوں کی کردار کشی کی جائے گی اور ریاست ان معاملات پر خاموشی اختیار کرے تو اس سے ریاست کمزور ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کے گزشتہ سال 2023 کے اعداد و شمار میں انکشاف ہوا تھا کہ آزادی اظہار رائے کی مد پاکستان میں 7 درجے بہتری آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں 150 نمبر پر ہے جبکہ سال 2022 میں 157 نمبر پر تھی۔