یہ دیکھو ہماری پارٹی جیت گئی اور تمہاری پارٹی ہار گئی
رعناز
پچھلے کئی مہینوں سے الیکشن کی تیاریاں زور و شور کے ساتھ جاری تھی۔ جگہ جگہ دیواروں پر مختلف امیدواروں کے پوسٹرز لگائے جا رہے تھے۔ کسی کی گاڑی پر پی ٹی ائی کا جھنڈا لگا ہوتا تھا تو کسی کی گاڑی پر عوامی نیشنل پارٹی کا۔ کوئی مسلم لیگ کا بندہ تھا تو کوئی جمیعت علمائے اسلام کو سپورٹ کرنے والا۔ سب اپنے اپنے طریقے سے اپنی اپنی پارٹی کے لیے کام کر رہے تھے۔ کوئی جلسے کرنے میں مصروف ہوتا تھا تو کوئی گھر گھر جا کر ووٹ حاصل کرنے کا کمپین چلاتا تھا۔ غرض ہر انسان اپنی ان تک محنت اور جدوجہد کرنے میں مصروف تھا تاکہ ان کا نمائندہ یا ان کی پارٹی جیتے۔
آخر کار 8 فروری کو الیکشن ہو ہی گیا۔ نتائج سنائے گئے جس کی بنا پر کوئی جیتا تو کوئی ہارا۔ کسی پارٹی یا امیدوار کو فتح نصیب ہوئی تو کسی کو شکست۔ یہ ایک حقیقت پر مبنی بات ہے کہ جب دو لوگ میدان میں مقابلے کے لیے اترتے ہیں تو کسی نے ہارنا ہوتا ہے اور کسی نے جیتنا۔ نہ ہی دونوں ہارتے ہیں اور نہ ہی دونوں جیتتے ہیں۔ مگر اب تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی ہار جیت کو قبول بھی کرے جو کہ بالکل بھی نہیں ہو رہا۔
الیکشن کے اگلے دن میں نے زیادہ تر لوگوں کے منہ سے یہی باتیں سنی کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کو کہہ رہے تھے کہ ہماری پارٹی جیت گئی اور تمہاری پارٹی ہار گئی۔ تم لوگ جیتنے کے قابل نہیں تھے اس لیے ہار گئے۔ ہار تم لوگوں کا نصیب ہی تھا وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان باتوں پر مخالف پارٹی کے کارکنان کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور دونوں میں لڑائی ہو ہوتی ہے۔ یہ لڑائی ہاتھا پائی سے لے کر فائرنگ کے اسٹیج تک گئی۔ مجھے آگے بھی انہی لڑائی جھگڑوں کے اثار نظر آرہے ہیں اس لیے آج میں اپنا قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔
آج جب میں ڈیوٹی کے لیے جا رہی تھی۔ جاتے ہوئے میں نے روڈ پر لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ سب سے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے خوب ایک دوسرے کو مارا ہو۔ باقاعدہ ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔ یہ نظارہ دیکھتے ہی میں بہت ہی زیادہ ڈر بھی گئی اور ساتھ میں پریشان بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں ایک ہی سوال بار بار اٹھ رہا تھا کہ آخر ان نوجوانوں کی لڑائی ہوئی تو کس وجہ سے؟ لڑائی کی وجہ مجھے تب جا کے پتہ چلی جب میں نے رکشے والے ڈرائیور انکل سے پوچھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے مجھے بتایا کہ لڑائی کی وجہ الیکشن میں ہونے والی ہار اور جیت ہے۔ خیر یہ نظارہ دیکھنے کے وقت بھی مجھے تھوڑا سا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ لڑائی آخر ہو کیوں رہی ہے۔ کیونکہ اس وقت بھی لوگ ایک دوسرے کو یہی طعنہ دے رہے تھے کہ آپ لوگوں کی پارٹی ہار گئی ہے اور ہم لوگ جیت گئے۔
بات کو اور زیادہ جاننے کی صورت میں مجھے پتہ چلا کہ لڑائی میں حصہ لینے والے لوگوں کا تعلق دو مخالف پارٹیوں سے تھا۔ جس میں ایک پارٹی جیتی تھی اور دوسری ہاری تھی۔ لڑائی اس بات پر ہوئی کہ ایک پارٹی کے کارکن نے دوسرے سے کہا کہ ہم لوگ جیت گئے اور آپ لوگ ہار گئے۔ اس چھوٹی سی بات پر یہ اتنی بڑی لڑائی ہوئی کہ بات فائرنگ تک پہنچ گئی۔
مجھے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کی سوچ پر۔ کیا ہماری نوجوان نسل صرف یہاں تک محدود ہو گئی ہے کہ وہ پارٹیز کے لیے ایک دوسرے کے گریبان پکڑیں گے؟ ایک دوسرے سے لڑیں گے جھگڑیں گے؟ کیا ان کے پاس کرنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل صرف لڑائی جھگڑوں تک ہی محدود ہوگئی ہے ؟ اور وہ بھی صرف اور صرف پارٹیز کے لیے۔ مجھے تو سراسر یہ بچپنا لگتا ہے۔
ہمیں صرف اور صرف یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہماری ان لڑائی جھگڑوں سے پارٹیز پر کوئی بھی اثر نہیں پڑے گا۔ جیتنے والے اپنی جیت کی خوشیاں منانے میں مصروف ہے۔ انہیں کوئی پتہ نہیں ہے کہ باہر ان کی یا ان کی پارٹی کے لیے کوئی لڑ رہا ہے۔ ادھر نقصان ہے تو صرف اور صرف ان لوگوں کا جو پارٹیز کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہیں، کہ تم نے کیوں ہماری پارٹی کے خلاف بات کی ہے۔
دوسرا میں نے زیادہ تر ان لڑائی جھگڑوں میں دیکھا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ہی سرفہرست ہوتی ہے۔ غرض ہماری نوجوان نسل کو یہ بچپنا اور غلط حرکتیں چھوڑ دینی چاہیے۔ دوسروں کے لیے لڑنے میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ پارٹیز کے لیے لڑائی جھگڑے کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔