سیاست

جیتنے والے آزاد امیدواروں کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدواروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی جبکہ صوبے میں قوم پرست اور وفاقی سیاسی جماعتوں کو بری طرح شکست ہوئی۔ تاہم تجزیہ کار سیاسی پارٹیوں کی شکست پی ڈی ایم حکومت بنانے، اس میں غیرمقبول فیصلے کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کا انتقام سمجھتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق تاحال موصول ہونے والے اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کے کُل 113 نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدواروں نے 73، پاکستان مسلم لیگ ن نے 4، پاکستان پیپلزپارٹی نے 3، مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے 2 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 1 سیٹ پر فتح حاصل کرلی ہے جبکہ قومی نشستوں پر 44 میں سے 42 پر آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔

قومی اسبملی کی سیٹوں پر فاتح آزاد امیدواروں میں اسد قیصر، عمر ایوب، شہریار آفریدی، علی محمد خان، شہرام ترکئ، عاطف خان اور شاندانہ گلزار جبکہ کمزور پوزیشن میں امیر حیدر خان ہوتی، ایمل ولی خان، غلام احمد بلور، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، پرویز خٹک، امیر مقام نور عالم خان شامل ہیں۔

تاہم تجزیہ کار سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی شکست کی اصل وجہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے حکومت بنانے، انہی پارٹیوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور ملک میں حالیہ مہنگائی کا انتقام سمجھتے ہیں۔
سنئیر صحافی و تجزیہ کار حق نواز خان نے ٹی این این کو بتایا کہ انتخابات میں ہار جیت جمہوریت کا حصہ ہے تاہم عام انتخابات میں عمران خان کی حمایتی کارکنوں نے بغیر کسی روک ٹوک کے ووٹ ڈال دئے جس نے آزاد امیدواروں کو فتح دلا دی۔
حق نواز نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو انہوں نے مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے اضافہ کر دیا جس کا نقصان عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ہوا۔ گو کہ عوامی نیشنل پارٹی بعد میں پی ڈی ایم سے الگ ہوگئی مگر عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف مہنگائی کے ذمہ داری کا تاثر موجود تھا۔

انہوں نے بتایا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طریقے سے عمران خان کو حکومت سے ہٹایا گیا تو عوام اور بالخصوص نوجوان سمجھتے تھے کہ ان کے ہٹانے میں سیاسی جماعتوں کا کردار موجود ہے جسے عوام نے عمران خان پر ظلم سمجھ کر ووٹ عمران کے حمایتی آزاد امیدواروں کو ڈال دیا۔

حق نواز کے مطابق خیبرپختونخوا میں سوائے پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی جماعتوں نے بھرپور سیاسی مہم چلائی تھی مگر حالیہ مردم شماری میں شامل بیشتر نوجوان اور پی ٹی آئی کے کارکن سمجھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ اسٹیبلشمنٹ نہیں دے رہی تو ووٹ کو اپنا سیاسی انتقام سمجھ کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف استعمال کیا۔

مگر سینئر صحافی و تجزیہ کار سید شاہ رضا شاہ پی ڈی ایم کی حکومت میں مہنگائی اور غیر مقبول فیصلے آزاد امیدواروں کی فتح نہیں سمجھتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو غیرمقبول فیصلوں کے باوجود بھی اپنے ہی عوام نے جتوایا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خیبرپختونخوا میں الیکشن کے نتائج کو غیر متوقع نہیں سمجھتے کیونکہ یہاں پر نوجوانوں نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے ساتھ قانونی کاروائیوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ظلم سمجھ کر ووٹ کے ذریعے انتقام لیا مگر پی ٹی آئی کا وہ بیانیہ دم توڑ گیا جس میں الیکشن کی لیول پلینگ فیلڈ کی عدم فراہمی کا شکوہ کیا جاتا تھا۔

شاہ رضا شاہ نے شکست کھانے والے سیاسی پارٹیوں کی سیاسی حکمت عملی کو بھی غیر موثر قرار دے کر بتایا کہ خیبرپختونخوا میں عوام سیاسی پارٹیوں کے منشور اور کارناموں کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں نے اسی جذبات کو بغیر سمجھے الیکشن مہم چلائی جس سے بھی ان کو نقصان اُٹھانا پڑا۔

مگر سوال یہ ہے کہ فاتح آزاد امیدواروں کی قانونی حیثیت اور مستقبل کیا ہوگا تو اس کا جواب سپریم کورٹ کے وکیل نورعالم نے بتایا کہ قانون کے مطابق آزاد امیدوار حلف لینے کے بعد تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔
ایڈوکیٹ نورعالم خان نے بتایا کہ امیدواروں کے انتخاب کے بعد پارلیمان میں اجلاس بُلایا جاتا ہے جس میں منتخب نمائندے حلف لیتے ہیں اور جب حلف لیا جائے تو اس کے بعد وہ پابند ہیں کہ وہ پارلیمان کے اندر پارلیمانی الیکشن سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں جس سے اس پارٹی کی خواتین کی مخصوص اور اقلیتی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
نور عالم خان کہتے ہیں "یہ آزاد نمائندے اپنی پارٹی نہیں بناسکتے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے باہر کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن کر نمائندگی کرسکتے ہیں”۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button