سیاست

خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے الیکشن پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

 

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا میں الیکشن قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر دہشتگرد حملوں کا سلسلہ شروع ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی جماعتوں پر حملوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے جس سے ان کے انتخابی مہم پر اثر پڑے گا۔

29 دسمبر کو وزارت داخلہ کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور انکے بیٹے اسعد محمود کو محتاط رہنے کی تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے جنرل الیکشن کے اعلان کے بعد گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سیاسی کارکنوں پر 2 حملے ہوئے ہیں جن میں باجوڑ میں پی کے 19 کے امیدوار قاری خیراللہ پر بم حملہ اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ کی گاڑی پر حملے شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہونے والے انتخابات سے قبل دہشتگرد حملوں کی تھریٹس کے بعد عملی طور پر حملے شروع کئے جاتے ہیں اور اکثر وہ سیاسی جماعتیں نشانہ بنتے ہیں جنکے اہداف جمہوریت کی بالادستی ہو۔
سیاسی تجزیہ کار و صحافی ارشد مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ جعمیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کو وزارت داخلہ کی جانب سے تھریٹ الرٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان دونوں کیلئے الیکشن میں حصہ لینا مشکل ہوجائے گا۔
جب ارشد مہمند سے پوچھا گیا کہ جمعیت کی جانب سے الیکشن معطل کرنے کا مطالبہ کتنا درست ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ مطالبہ الیکشن ملتوی کرنے کا جواز نہیں بن سکتا ہے کیونکہ 2013 میں عوامی نشینل پارٹی دہشتگردی کا نشانہ تھی مگر پھر بھی الیکشن ہوئے تو اس بار بھی یہی لگ رہا ہے کہ اس مشکل حالات میں الیکشن اپنے وقت پر ہونگے۔

سیاسی تجزیہ کار و صحافی لحاظ علی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سال 2013 اور 2018 میں عوامی نیشنل پارٹی پر مسلسل حملے ہو رہے تھے جن کا موقف تھا کہ انکے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں مگر اے این پی نے اس وقت الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور نہ آج کر رہی ہے۔
لحاظ علی نے بتایا "اب مزید کتنا الیکشن ملتوی ہوگا آئین کے مطابق یہ تو اپریل 2023 میں کرنا چاہئے تھا مگر اسے فروری 2024 تک ملتوی کر دیا گیا، میرے خیال میں اس سے صوبے کے معاشی اور ترقیاتی کام رُکے ہوئے ہیں اور اس میں مزید تعطل نہیں کرنی چاہئے”۔
مخصوص سیاسی پارٹٰیوں کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے ارشد مومند نے کہا کہ گزشتہ ادوار میں اے این پی نے ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپور اپریشنز کئے ہیں اور اپنی الیکشن مہم کے دوران مسلسل ان کی انتہاپسند سوچ اور سرگرمیوں کے خلاف بات کی ہے گو کہ طالبان عوام پر حملوں کی تردید کرتے ہیں لیکن اب انہیں کون ٹارگٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا جواب آنے والا وقت بتائے گا۔
مگر صحافی لحاظ علی کے مطابق سیاسی پارٹیوں پر حملوں کی اصل وجہ جمہوریت کیلئے جدوجہد ہے جس کو مسلح تنظیمیں ‘کفر’ سمجھتی ہے۔

لحاظ علی کہتے ہیں ” عمومی طور پر جہادی تنظمیں پاکستان میں جمہوریت کے خلاف رہی ہیں اور اسے کفری نظام سمجھتے ہیں، سیاسی جماعتوں کی جدوجہد وہ اپنی سوچ کے خلاف سمجھتی ہے اسلئے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے”۔
لحاظ علی نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی طالبان کے علاوہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی کاروائیاں کرتی ہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں سیاسی پارٹیوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جس کے اثرات ان کی انتخابی مہم پر پڑیں گے۔
مگر جمعیت علمائے اسلام پر حملوں کے بارے میں ارشد مومند بتاتے ہیں کہ انہیں داعش خراساں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ داعش اور افغان طالبان کے درمیان فکری اختلاف ہے اور اس وجہ سے نہ صرف وہ افغان طالبان پر حملے کر رہے ہیں بلکہ جمعیت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

آئندہ ہفتے کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان افغانستان کا دورہ کریں گے جنہوں نے جمعے کے دن وزارت خارجہ سے بریفنگ لی ہے۔
تاہم مولانا فضل الرحمان انتخابات کے اعلان کے بعد مسلسل انتخابات کے ملتوی ہونے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور انتخابات ملتوی ہونے کے لئے جمعے کے دن سینیٹ آف پاکستان میں متفقہ طور پر قرارداد بھی منظور کی گئی ہے جس کی مخالفت ن لیگ کے سنیٹر افنان اللہ نے کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف الیکشن بروقت کرنے کے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ سیکورٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 کی نسبت 2023 میں تحریک طالبان پاکستان، داعش خراساں اور بلوچ لبریشن آرمی نے دہشتگرد حملوں میں 78 فیصد سے زائد حملے کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دہشتگرد حملے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظمیں اسلئے کاروائیوں میں تیزی لا رہے ہیں کہ انکے ساتھ حکومت پاکستان مذاکرات کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button