حدیبیہ افتخار
کسی نے کیا خوب کہا ہے ” کہ سوچنے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور کام کرنے والے آگے بڑھ جاتے ہیں,” مگر آج مجھے پتہ چلا کہ زیادہ سوچنے والے صرف پیچھے ہی نہیں رہتے بلکہ اس کے علاوہ ان گنت مسائل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
زیادہ سوچنا یا ضرورت سے زیادہ سوچنے کو ہم انگریزی میں اوور تھنکنگ کہتے ہیں۔ اب اوور تھنکنگ اصل میں ہے کیا؟ اس کی اقسام اور علامات کیا ہیں؟ لوگ زیادہ کیوں سوچتے ہیں؟ اس سے کون کونسی ذہنی اور جسمانی بیماریاں سامنے آتی ہیں اور اس سے چھٹکارا پانا کیسے ممکن ہے؟
کچھ ایسے سوالات میرے ذہن میں آئے اور میں نے اس کے جوابات اس فیلڈ کے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اس بلاگ میں ہم آپ کو بتانے کی کوشش کریں گے۔
اوورتھنکنگ ہے کیا؟
ڈاکٹر عرشی ارباب کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں ان سے جب اس حوالے سے بات کی اور پوچھا کہ اوور تھنکنگ کیا ہے؟ اور اس کی کیا علامات ہیں؟ ڈاکٹر عرشی نے بتایا کہ کسی بھی بات وہ چاہے ماضی سے منسلک ہو یا مستقبل میں اس بات/ کام کا خدشہ ہو، اس پر گھنٹوں سوچنا پھر چاہے وہ آپ کے اختیار میں ہو یا نہ ہو اوورتھنکنگ (Overthinking) کہلاتا ہے۔
اوورتھنکنک میں مبتلا لوگ ہمیشہ افسردہ رہتے ہیں اور ان کا ذہن منفی خیالات کا مرکز بن جاتا ہے, وہ ایسی چیزوں سے بھی گھبرانے لگتے ہیں جو ابھی ہوئے بھی نہ ہوں۔
اوور تھنکنگ کی اقسام ہیں؟
ڈاکٹر عرشی ارباب کے مطابق (overthinking) کی دو قسمیں ہیں، ایک ان لوگوں کی جو ماضی میں ہوئی باتوں پر خود کو کھوستے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ کاش ہم نے اس وقت صحیح فیصلہ کیا ہوتا تو آج ہمارے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ ممکن ہے کہ غلطی ان کی ہو ہی نہ مگر وہ خود کوہی قصور وار ٹھراتے ہیں, اوور تھنکنگ کی یہ قسم رومینیشن (rumination) کہلاتی ہے۔
اوور تھنکنک کی دوسری قسم یہ ہے کہ لوگ مستقبل کا سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں جیسے کہ ابھی امتحانات ہوئے بھی نہ ہوں اور آپ نتائج سے خوفزدہ ہو جائیں, اس قسم کو ورینگ (worrying) کہتے ہیں۔
دوست ہر انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، آپ کی زندگی میں ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہیئے جو آپ کی بات سنے اور آپ کو صحیح مشورہ دے۔
عرشی ارباب کے مطابق اوورتھنکنگ کرنے والے افراد کسی سے اپنے مسائل شئیر نہیں کرتے اور خود ہی اپنے ذہن میں نئے نئے سوالات لاتے ہیں اور ان کے جوابات ڈھونڈتے ہیں اور یوں وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے بھی نہیں کر پاتے بلکہ ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے۔
اوور تھنکنگ کی ازدواجی زندگی پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
زیادہ یا ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد چاہے مرد ہو یا عورت اپنی ازدواجی زندگی میں خوش نہیں رہ سکتے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت سوچوں میں گھم رہتے ہیں اور اصل زندگی سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔
اس پوائنٹ کو مزید واضح کرنے اور اس بارے میں جاننے کے لئے میں نے ایک ایسی خاتون سے بات کی جو پچھلے کئی سال سے اوور تھنکنگ کا شکار ہیں اور خود اوورتھنکنک کو بد ترین بیماری تصور بھی کرتی ہیں۔
اوورتھنکنک کے شکار خاتون (نام ظاہر نہیں کیا گیا) نے بتایا کہ سوچ سوچ کر ان کا دماغ اتنا تھک جاتا ہے کہ وہ گھر کا کوئی کام کئے بغیر ہی بہت تھکاوٹ محسوس کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کو بھی وقت نہیں دے پاتی اور نہ ہی اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے پوری کرتی ہے۔ اور یوں کچھ کام کئے بغیر صرف سوچنے میں ہی ان کی ساری انرجی ضائع ہو جاتی ہے۔
اوور تھنکنگ اور تعلیم:
بچپن میں نے ہم نے اپنے بڑوں سنا تھا کہ دل لگا کر پڑھیں, اور اب اپنے بچوں کو بھی ہم یہی جملہ کہتے ہیں۔
اس سے مراد یہی ہے کہ ہم پوری توجہ سے پڑھائی کریں۔ اب اگر بچہ اوورتھنکر ہے اور کلاس میں بیٹھا ہے لیکن اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا ہے تو وہ کہاں سے اپنی پڑھائی پر دیہان دے پائیگا۔
اوور تھنکنگ کا انسان کی تعلیمی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے، یہ جاننے کے لئے ہم نے پشاور یونیورسٹی میں سائیکالوجی کی پروفیسر خوشبو سے رابطہ کیا۔ خوشبو نے بتایا کہ ایسے لوگ نہ ہی کلاس میں لیکچر پر دیہان دے پاتے ہیں اور نہ گھر میں پڑھائی پر دیہان دیتے ہیں بلکہ کتاب اٹھاتے ساتھ ہی دوسری سوچوں میں گھم ہو جاتے ہیں۔
جسمانی اثرات:
ڈاکٹر عرشی ارباب کے مطابق جو لوگ ضرورت سے زیادہ سوچتے ہیں ان کو کئی جسمانی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے بڑے مسائل وزن کا بڑھنا اور گھٹنا ہے۔ عرشی ارباب بتاتی ہیں کہ ایسے لوگ گھنٹوں ایک جگہ بیٹھے ہوتے ہیں جس سے ان کا وزن بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ دماغی دباؤ کی وجہ سے ان کے معدے پر اثر پڑتا ہے اور ان کو بھوک نہیں لگتی اگر بھوک لگے بھی تو ان کو محسوس نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ سر درد، مائگرین، اور ہڈیوں کے درد جیسے مسائل ان کا معمول بن جاتا ہے۔ اوور تھنکنگ سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر عرشی ارباب بتاتی ہے کہ انسان زیادہ سوچنے سے تب ہی باہر آسکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو مصروف رکھے۔
کچھ نئے چیزیں سیکھے، اپنے اندر خامیاں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی اچھائیوں پر خود کو تسلی دیں اور جب بھی منفی خیالات دماغ میں آئے تو خود کو STOP کرکے وہی پر رک جائے۔ یہ وہ طریقے ہیں جو آپ کو مثبت سوچنے اور شکر ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔