بلاگزلائف سٹائل

بابا نے کہا تھا بے نظیر بھٹو کی موت کی خبر سن کر دل نہیں کرتا کہ میں کھانا کھالوں

 

انیلا نایاب

وقت کے ساتھ لوگ بھی کسی کا انتظار نہیں کرتے کیونکہ وقت تیزی سے گزر جاتا ہے اور لوگ اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔

27 دسمبر 2007 کی رات شاید کل کی بات لگتی ہے لیکن 16 سال بیت گئے جب لیاقت باغ راولپنڈی میں سابقہ وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو پر جلسے میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئی۔

مجھے یاد ہے میری والدہ کچن میں تھی اور والد صاحب ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ اچانک یہ بریکنگ نیوز چلی کہ لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ ٹی وی پر بی بی کا وہ آخری شوخ نیلے رنگ کے سوٹ میں مسکراتا چہرا دکھائی دے رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی کوئی بے رحم و ظالم اس خوش باش چہرے کو ہمیشہ کے لئے فنا کر دیتا ہے۔ بی بی اپنے سپورٹروں کے اس نعرے ، بی بی زندہ باد، بینظیر وزیر اعظم پاکستان کا جواب ہاتھ لہراتے ہوئے دے رہی تھی کہ نامعلوم لڑکے کی جانب سے بی بی پر 3 فائر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔

مجھے اب بھی یاد ہے اس رات میرے بابا نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ میری والدہ نے کافی اصرار بھی کیا کہ کھانا کھا لو لیکن بابا نے نہیں کھایا یہ کہہ کر بینظیر کی موت کی خبر سن کر دل نہیں کرتا کہ میں کھانا کھالوں۔

بی بی میرے والد کی پسندیدہ شخصیت تھی کیونکہ میرے والد کو ہمیشہ خود مختار خواتین پسند تھی۔ اس لئے انہوں نے ہماری پرورش بھی ایسی کی کہ جتنا ہوسکا ہم سب بہنوں کو خود مختار بنانے کی کوشش کی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ زندگی کے سب معاملات خود کرنے کا اختیار دی۔

اس لئے بابا صرف پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیتے تھے۔ لیاقت باغ راولپنڈی سے ایک یا دو روز پہلے بی بی کا جلسہ پشاورمیں تھا تو دفتر کا وقت گزرنے کے باوجود بابا گھر نہیں پہنچے جس کی وجہ سے سب گھر والے پریشان تھے انکا فون بھی مسلسل بند آرہا تھا ۔ شام ہونے تک بابا کا کوئی پتہ نا چل سکا تو امی بولی شاید جہانگیر بینظیر کے جلسے میں گئے ہیں اس لئے دیر ہوئی ان کو ۔

رات کو جب بابا آئے تو واقعی میں وہ جلسے میں گئے تھے سب نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ حالات اچھے نہیں ہیں ایسا آئندہ نا کریں کیونکہ ان دنوں پشاور میں کافی دھماکے ہوا کرتے تھے اور پھر بی بی کو بھی کافی خطرا تھا۔

بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئی تھی۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے پولیٹکل سائنس میں انڈر گریجویٹ جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی لیکن ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ بیرونی ممالک سے پڑھ کر بھی بی بی ایک نفیس سادہ اور خوش اخلاق خاتون تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طالب علمی کے دور میں دو پاکستانی نوجوانوں نے بینظر بھٹو کو شادی کی آفر بھی کی تھی لیکن انہوں نے انکار کیا تھا۔

کہتے ہیں کہ بی بی کو صرف والد ذوالفقار علی بھٹو ہی پنکی کہتے تھے۔ 18 دسمبر 1987 کو بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری سے شادی کی اور 16 نومبر 1988 میں الیکشن جیت کر مسلم دنیا میں پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم بنی۔ اسکے بعد دوسری مرتبہ اکتوبر 1993 میں پاکستان کی وزیر اعظم بنی۔

وقت گزر رہا ہے سب لوگ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن بی بی کا قاتل نا پکڑا جا سکا۔ 16 سال ہوگئے ہیں لگتا ہے کل کی تو بات تھی اس سانحے کے بعد میرے والد نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہیں دیا وہ کہتے تھے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کو نہیں ایک خاتون کو سپورٹ کرتے تھے۔ ان کی نظر میں شاید ایک خاتون ہی دوسری خواتین کے لئے ترقی، آزادی اور حقوق کے کام کرسکتی ہیں کوئی مرد نہیں کرسکتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button