جرائم

پشاور میں دن دیہاڑے نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے طالب علم جاں بحق

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور میں دن دیہاڑے نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے طالب علم جاں بحق ہوگیا۔ واقعے میں زخمی حسیب نے پولیس کو بتایا کہ گزشتہ روز وہ اپنے خالہ زاد بھائی کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ اسی دوران دو افراد نے آکر ان پر بہ ارادہ قتل فائرنگ کرکے زخمی کر دیا۔
حسیب کے مطابق دانش زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں چل بسا۔ تھانہ داؤد زئی پولیس نے واقعے کی رپورٹ دفعہ 302 اور 324 کے تحت درج کر کے ملزمان کے خلاف سرچ اپریشن شروع کی ہے۔
تھانہ داؤدزئی پولیس اسٹیشن کے محرر قمر نے ٹی این این کو بتایا کہ واقعے کی وجوہات تاحال سامنے نہیں آئی ہے اور نہ اس میں موبائل سنیچنگ یا رقم چھیننے کے کوئی شواہد سامنے آئے ہیں کیونکہ اس وقت دونوں بچوں کے پاس موبائل نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مقتول دانش ضلع چارسدہ کے تحصیل شبقدر کے ورسک ماڈل سکول کے میٹرک جماعت کے طالبعلم تھے جس کی عمر 17 یا 18 سال کے درمیان بتائی گئی ہے۔

محرر قمر نے بتایا کہ واقعے کی رپورٹ مقتول دانش کے ماموں زاد بھائی حسیب کے مدعیت میں درج کرا دی گئی ہے، ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔

تاہم دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے طلباء نے طالبعلم كے قتل كے خلاف احتجاجی مظاہرہ كركے اس واقعے كو موبایل سنیچنگ قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر طلباء نے احتجاجی مظاہرے كے دوران مطالبہ كیا كہ طلباء كی سیكورٹی یقینی بنائی جائے اور واقعے میں ملوث سنیچرز كو گرفتار كیا جائے۔

انہوں نے بتایا كہ طالب علم كے قتل سے دیگر طلباء بھی خود كو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں جس کی وجہ سے طلباء میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے لہذا انہیں تحفظ دیا جائے۔
پشاور كے امن و امان كے مجموعی صورتحال پر كرائم رپورٹر طارق وحید نے بتایا كہ گزشتہ کئی ماہ سے پشاور کی صورتحال خراب ہے اور جرائم کے پے درپے واقعات سے عوام خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
طارق وحید نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ساتھ وہ وسائل موجود نہیں جس کے ذریعے وہ جرائم پیشہ افراد کی فوری نشاندہی کرے بلکہ پرانے طریقہ کار کے تحت اپنی کاروائیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا "میں سمجھتا ہوں کہ پشاور کی آبادی پچاس لاکھ تک بڑھ چکی ہے اور اس حساب سے پولیس موبائیل وین یا ابابیل فورس کی تعداد نہایت کم ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد اپنی کاروائیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے”۔

طارق کے مطابق پہلے جب آبادی کم تھی اور موبائیل وین گلی کوچوں کو میں چکر لگاتے تھے تو پولیس کی ڈر سے جرائم پیشہ افراد کاروائیاں کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے مگر اب چونکہ آباد بڑھ گئی ہے تو اس حساب سے نئی پالیسی اور اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

طارق وحید نے سیف سٹی کیمروں کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک وہ نظام بھی فعال نہیں ہوسکا ہے جس کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کو پکڑا جاسکیں حالانکہ سات سال گزر گئے مگر وہ نظام اب تک غیر فعال ہے۔
انکے مطابق سیف سٹی پروجیکٹ ایک جامع نظام ہے جو پنجاب اور دیگر صوبوں میں قائم کیا گیا ہے مگر یہاں پر اس کی فزیبیلیٹی اور فنڈ کی منظوری کے باوجود بھی عملی طور پر وہ پروجیکٹ فعال نہ ہوسکا۔
یاد رہے کہ اس سال 11 اکتوبر کو پشاور کے مفتی محمود فلائی اوور پر ایڈورڈ کالج کے طالبعلم حسن طارق کو راہزنوں نے موبائیل چھیننے کے دوران قتل کیا تھا جس میں قتل میں ایک افغان شہری ملوث پایا گیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button