خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری مذہبی شناخت پر جداگانہ حق رائے دہی استعمال کرنے کی خواہاں
سلمٰی جہانگیر
تقسیم ہند کے بعد ہمارا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر کے خیبر پختونخوا میں آباد ہوا آباو اجداد کا بھی یہی ملک و شہر تھا اب ہمارا بھی ہے” یہ کہنا ہے پشاور شہر میں رہنے والی مینا کا جسکی عمر 55 سال ہے۔
انتخابات میں اقلیتی نمائندوں کے ووٹ کے زریعے انتخاب کے حوالے سے کہتی ہیں کہ بہت ہی اچھا ہوتا اگر ریزرو سیٹ کی جگہ اقلیتی برادری کا کوئی نمائندہ الیکشن لڑتا اور پھر ووٹ کے زریعے اسمبلی جاتا تو اس طرح ان کے کافی مسائل جلد حل ہوجاتے۔ لیکن ریزرو سیٹ کا نمائندہ اس طرح سے کام نہیں کر سکتا جس طرح اقلیتی برادری کی ضرورت ہوتی ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں ڈھائی لاکھ سے 3 لاکھ تک ہے جس پر اقلیتی برادری کا اختلاف ہے۔ ان کے مطابق یہ آبادی تقریبا 5 لاکھ کے قریب ہے۔
سابقہ ایم پی اے وزیر زادہ جو 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کی جانب سے ریزرو سیٹ پر منتخب ہوئے تھے انکا تعلق کیلاش چترال سے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے دورسے پہلے یعنی 2002 سے پہلے جو نظام تھا اس میں اقلیتی نمائندوں کے لئے جو سیٹ تھے اس پہ مائنرٹی خود ووٹ دے کراپنا نمائندہ کا انتخاب کرتے تھے جبکہ پرویزمشرف نے ان سیٹوں پر انتخاب کا طریقہ کار تبدیل کر دیا اورریزرو سیٹ کا نظام بنایا گیا۔
وہ مزید اس سسٹم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انکے نزدیک یہ طریقہ کار مناسب نہیں ہے کیونکہ اقلیتوں کو اپنے نمائندے خود چننے چاہیے تاکہ وہ منتخب نمائندے آگے چل کر ہر کام کے لئے جواب دہ بھی ہوں اور اپنی اقلیتی برادری کا خیال بھی رکھیں۔
وزیر زادہ کہتے ہیں کہ اب اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے ٹو تھرڈ میجارٹی ضروری ہے جسکے بعد اس میں امینڈمنٹ ہوگی۔ آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں کافی تبدیلیاں کی ہیں لیکن اس میں بھی اقلیتیوں کے انتخاب کا طریقہ کار یہی رکھا یعنی ہر پارٹی اقتدارمیں آنے کے بعد کسی بھی اقلیتی نمائندے کو ریزرو سیٹ پر منتخنب کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اس نظام یا طریقہ کار پر اپنے دور حکومت میں کافی توجہ دی تھی کہ اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ وہ میجارٹی کو بھی ووٹ کاسٹ کر لیں اور اپنے نمائندہ کو بھی ووٹ دے سکے لیکن اس وقت بھی چونکہ ٹو تھرڈ میجارٹی نہیں تھی تو یہ نہیں ہو سکا۔
اس موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے بھی وزیر زادہ نے اپنے لیڈرشپ کو یہ تجویز بھیجی ہے کہ اقلیتی خواتین کے لئے بھی ایک سیٹ ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر 20 سیٹس ہیں تو اس میں ایک یا دو سیٹ ضرور خواتین کی بھی ہونی چاہئے۔ کے پی میں 4 اقلیتی سیٹس ہیں جس پر خاتون یا مرد کوئی بھی منتخب ہو کر آسکتا ہے لیکن صرف اقلیتی خاتون کے لئے کوٹہ نہیں ہے۔ تو جب اقلیتی سیٹ پر کوئی آتا ہے تو وہ مرد ہی منتخب ہوکر آتا ہے کھبی بھی کسی خاتون کو یہ موقع نہیں دیا گیا۔
جبکہ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ سیاست تو خدا کی مخلوق کی خدمت کا نام ہے لہذا عوامی نیشنل پارٹی رنگ ،نسل ، زبان سے بالاتر انسانیت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ،اقلیت ،مرد ،عورت سب کے لئے انتخاب کا طریقہ کار جدا گانہ نہیں ہونا چاہئے یہ سب کی مشترکہ سیاسی منزل ہے۔
کرن کماری جو ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور پشاور کے ایک سرکاری سکول میں استانی ہیں۔ کہتی ہیں کہ پہلے ووٹ کے زریعے نمائندہ منتخب ہوکر اسمبلی جایا کرتا تھا جو نا صرف اپنی برادری کی بھلائی بہبود اور ترقی کے لئے کام کرتا تھا بلکہ کل کو وہ جواب دہ ہوا کرتا تھا۔ اب تو جس پارٹی کو جو بندہ پسند ہوتا ہے اسکو ریزو سیٹ پر منتخب کر کے بٹھا دیتے ہیں وہی کرتا ہے جو ان کو ان کی پارٹی کہتی ہیں۔ اس منتخب نمائندے کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں اپنی اقلیتی برادری کے لیے۔
اس سلسلے میں جب محمد فہیم سے بات ہوئی جو سنئر تجزیہ نگار ہیں تو کہتے ہیں کہ کرن کی بات درست ہے اقلیتی برادری کو مسئلہ موجود نشستوں کا طریقہ انتخاب ہی ہے۔ پہلے ووٹ کے زریعے منتخب اقلیتی برادری کے نمائندے قانون ساز اسمبلیوں میں آتے تھے ووٹ کے زریعے نمائندے پھر ان کے سامنے جواب دہ بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب سے 2002 کے بعد پرویز مشرف نے یہ سسٹم ختم کیا ہے تو اب اقلیتی نمائندے کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ میں آگیا ہے اور وہ من پسند افراد کو چن کر اسمبلیوں میں بھٹا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اقلیتی برادری کو اصل نمائندگی نہیں مل رہی ہے جب تک یہ طریقہ کار ہوگا تو اقلیتی برادری کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چئرمین ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں طریقہ انتخاب دیکھ لیا جو ووٹ کے زریعے منتخب ہوتے تھے اور اب کا طریقہ انتخاب بھی جو کوئی بھی سیاسی جماعت من پسند بندے کو منتخب کر دیتا ہے دونوں سے ہی خوش نہیں ہے کیونکہ جو بھی اقلیتی برادری کے مسائل ہے ان کو کبھی حل نہیں کیا گیا جس طرح سے حل ہونا چاہئے تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ 75 سالوں سے اقلیتی برادری ،حکومت سے اپیل کر رہی ہے کہ اقلیتی خواتین کے لئے بھی نشست مخصوص کی جائے لیکن ابھی تک عمل درآمد نا ہو سکا۔
ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ پولیٹیکل لیڈرشپ کا جوکام ہے وہ قانون سازی کرنا ہے اور پالیسی میکنگ ہوتا ہے لیکن اگر قریب ماضی میں دیکھیں تو ہمارے چار نمائندے تھے اس میں سے دواہل مسیح تھے ایک سکھ برادری سے ،اور ایک ہندو برادری (کیلاش) سے تھا۔ لیکن ان کے ہونے کے باوجود کیلاش کمیونٹی کا جو فیملی لا ہے وہ ابھی تک ٹیبل نہیں ہوا۔
اسی طرح ہندو میرج ایکٹ جو کہ 2017 میں بنا لیکن ہندو ایم پی اے ہونے کے باوجود 6 سال اور 7 ماہ ہو گئے ہیں ابھی تک ہندو میرج رولز نہیں بنے۔ اسی طریقے سے سکھ نمائندہ ہونے کے باوجود سکھ فیملی لا صرف پنجاب میں بنا لیکن اس کی بھی رولزنہیں ہے لیکن خیبر پختونخوا میں سکھ نمائندہ ہونے کے باوجود سکھ فیملی لاء وہ ٹیبل نہیں ہوا اور اسی طرح کرسچن پی ٹی آئی نمائندہ تھے ولسن وزیر اس کے ہوتے ہوئے اور اسی طرح کرسچن جو جے یو ائی کے ایم این اے کے ہوتے ہوئے انکے مسائل جوں کے توں ہیں۔
اقلیتی تقریبات کے لئے تقریبا کروڑوں روپے رکھے گئے تھے اور ایک فیسٹول پر 25 لاکھ روپے کی رقم رکھی گئی تھی اور ایسے درجنوں پروگرام جو ہے وہ صوبائی حکومت نے ان پارلیمنٹیرین کے کہنے پر ان کی مرضی سے کیے ہر پروگرام 25 لاکھ روپے کا تھا جبکہ 25 روپےتک کی کوئی بھی چیز غریب کو نہیں دی گئی۔
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چئرمین ہارون سرب دیال کے مطابق اقلیتوں کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ بھی اس ملک کے باشندے ہیں انسانیت کے ناطے تمام بنیادی انسانی حقوق کے حق دار وہ بھی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف خیبر پختونخوا کے ترجمان سہیل احمد کے مطابق موجودہ وقت میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں اور وہ پارٹی جتنے نشستیں لیتی ہے اور اس کے مطابق ان کو سیٹ دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں بھی اقلیتوں کے لئے 3 سیٹیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر 10 سیٹیں ہیں صوبائی اسمبلی میں جو تین اقلیتی نشستیں ہیں ہر پارٹی ایک ترجیحی لسٹ الیکشنز کے دوران جمع کراتی ہے۔ مخصوص نشستوں کے لیے ریٹرننگ افیسر ہوتا ہے تو ان کے پاس وہ اپنی ایک پرائرٹی لسٹ جمع کراتے ہیں تو اس کے بعد پھر وہ پارٹی اگر نشستیں جیتی ہے تو جتنی جنرل نشستیں جیتی ہے اس حساب سے ان کے کوٹے میں اقلیتی اور خواتین کی جو نشستیں ہیں وہ اجاتی ہے تو یہ ایک سلیکٹو طریقہ کار ہے یعنی ایک طرح سے الیکشن نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے اقلیتی نشستوں کے لئے براہ راست الیکشن ہوتے۔ باقاعدہ ان نشستوں کے لیے جو اقلیتی امیدوار ہوتے عام امیدواروں کی طرح ان کے کاغذات کی بھی جانچ پڑتال ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
اس سسٹم کو بدلنے کے حوالے سے ترجمان کہتے ہیں کہ یہ کام الیکشن کمیشن کا نہیں ہے جو بھی قانون بنتا ہے اس قانون کے مطابق الیکشن کرانا الکیشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے۔ اگر اانے والے وقت میں اقلیتوں کے انتخانب کے طریقہ کار دو تہائی سے اسمبلی میں پاس ہو کر ترمیم کی جاتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن اس حساب سے انتخابات کرانی کی پابند ہوگی۔
نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔