لائف سٹائل

گلگت: 11 سالہ لڑکے کی شادی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی

یہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی شادی ہے جس میں دلہا کی عمر 11 سال جبکہ دلہن کی عمر 18 سال ہے۔

فخرعالم قریشی

گلگت بلتستان کی تاریخ کا کم عمرترین دلہا قرار پانے والے 11 سالہ دلہا حق نواز کی شادی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

دیامر کے علاقے داریل سے تعلق رکھنے والے حق نواز کی 18 سالہ لڑکی سے شادی کو اکثر صارفین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جن کے مطابق ایسی روایات کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسی خودساختہ روایات کا نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے نہ قانون۔

واضح رہے کہ اِس سے قبل بھی داریل، تانگیر اور ہربن کے علاقے میں کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادیاں کرائی گئی ہیں۔ تاہم یہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی شادی ہے جس میں دلہا کی عمر 11 سال جبکہ دلہن کی عمر 18 سال ہے۔

دلہا حق نواز اس وقت پریپ کلاس کے پیپرز دے رہا ہے اور ایک غیرسماجی تنظیم کے زیرنگرانی چلنے والی پرائمری سکول میں زیرتعلیم ہے۔

داریل سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اشتیاق داریلی کے مطابق 11 سالہ دلہا حق نواز ولد حضرت بلال امسال پریپ کلاس کے پیپرز دے رہا ہے۔ آج شادی کے دن بھی اردو کا پیپر تھا۔

11 سالہ دلہا حق نواز کے سکول ٹیچر شکور احمد داریلی کے مطابق دلہے کا والد جذباتی شخصیت کا حامل شخص ہے اور تقریباً نفسیاتی مریض ہۓ۔ شکور احمد کے مطابق یہ پہلی شادی ہے جس میں اہل علاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور ننھے دلہے کو مبارکباد پیش کی۔

کم عمری میں شادی کی وجہ بتاتے ہوئے ٹیچر شکور احمد کا کہنا تھا ہمارے ہاں اکثر پیدائش کے فوراً بعد لڑکا اور لڑکی کی مگنی کرا دی جاتی ہے۔ بعض اوقات جب بڑی عمر کی لڑکی شادی کے قابل ہو جاتی ہے تو لڑکے کی عمر کم ہوتی ہے۔ یہ شادی بھی اس کی مثال ہے۔

شکور نے مزید بتایا کہ دلہن کے والد نے دلہے کے والد سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ کا بیٹا چھوٹا ہے لہذا میں اپنی چھوٹی بیٹی کا ان سے نکاح کروانا چاہتا ہوں جس پر دلہا حق نواز کے والد طیش میں آ گئے اور 11 سالہ حق نواز کی 18 سالہ لڑکی سے شادی کرا دی۔ دلہا کے والد حضرت بلال سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم رابطہ نہ ہو سکا۔

محکمہ ترقی و منصوبہ بندی گلگت بلتستان کے ایک سروے رپورٹ  کے مطابق گلگت بلتستان میں 56 فیصد بچے بالخصوص بچیاں قانونی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔

2015 میں گلگت بلتستان حکومت نے اس حوالے سے ایک قانون منظور کرانے کی کوشش کی تھی تاہم اسے اسمبلی سے خصوصی کمیٹی کو منتقل کر دیا گیا اور بعد میں عدم توجہی کا شکار ہو گیا۔

2021 میں اس حوالے سے منعقدہ حکومتی سروے کے مطابق تقریباً 27 فیصد بچیاں 18 سال سے قبل ہی بیاہی جاتی ہیں جبکہ 7 فیصد بچیوں کی 15 سال کی عمر سے قبل ہی شادی ہو جاتی ہے۔ ضلع دیامر میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے جہاں پر ایسی بچیوں کی شرح 47 فیصد ہے۔

کم عمری میں شادی کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے فاروق عمر بھوجا کی جانب سے، 2021 میں، چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے ) 1929 کے سیکشن 4، 5، 6 کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے عمر کی کم از کم کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اور اسی لیے سی ایم آر اے 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اور اسی طرح لڑکوں کی کم از کم عمر کی حد 18 سال مقرر کرنا بھی غیراسلامی نہیں ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ تعلیم کی اہمیت خود وضاحتی ہے اور تعلیم کی ضرورت ہر ایک کے لیے، قطع نظر جنس، یکساں طور پر ضروری ہے۔ ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق علم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button