بلاگزلائف سٹائل

ڈپریشن کی نشانیاں کیا ہیں؟

 

حدیبیہ افتخار

اگر دیکھا جائے تو آجکل ڈپریشن کا لفظ بہت عام ہو گیا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں تو یہ لفظ کچھ زیادہ ہی سننے کو ملتا ہے۔ تھوڑی سی تیز آواز میں کوئی بات کریں اور ان سے پوچھیں کہ کیا ہوگیا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے یار ڈپریشن کاشکار ہوں, خواہ وہ ایک چھوٹی سی پریشانی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ اسے ڈپریشن کا نام دے دیتے ہیں۔

مگر اصل میں ڈپریشن ہے کیا؟ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟

خوشبو ایک سائیکالوجسٹ ہے اور ان کا تعلق پشاور سے ہے۔ خوشبو نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے بہت سے کیسز روزانہ آتے ہیں اور جتنے بھی کلائنٹس ان کے پاس آتے ہیں ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے اور سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ ان کو مسئلہ جو بھی ہو مگر وہ یہی شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ڈپریشن ہو گیا ہے۔

خوشبو کے مطابق لفظ ڈپریشن آج کل بہت عام ہو گیا ہے لیکن ڈپریشن اصل میں ہے کیا یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔

ڈپریشن کی وضاحت کرتے ہوئے خوشبو نے بتایا کہ ڈپریشن ہم اسے کہہ سکتے ہیں جب ایک انسان مسلسل دو سے تین ہفتوں تک خود میں کوئی خاص تبدیلی محسوس کرے یا کوئی اور اس میں یہ تبدیلی پائے۔ مثال کے طور پر اگر آپ پہلے اچھے خاصے سوشل انسان تھے مگر اب آپ مسلسل کچھ ہفتوں یا مہینوں سے اکیلے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، پہلے آپ روزمرہ کے کاموں کو بھرپور طریقے سے انجام دیتے تھے مگر اب آپ خود میں سستی اور کاہلی محسوس کرتے ہیں یا کسی کھیل میں دوستوں کے ساتھ حصہ لینے کی بجائے اپ ہفتوں تک خود کو کمرے میں قید کر لیتے ہیں۔

خوشبو نے بتایا کہ ڈپریشن کے شکار لوگ کسی سے بات کرنا تک پسند نہیں کرتے، اور اکثر نا امیدی کا شکار رہتے ہیں وہ خود پر تنقید کرتے ہیں، خود کو برا سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور جب یہ کنڈیشن مسلسل تین ہفتے یا اس سے زائد رہتی ہے تو انسان کہ ذہن میں خودکشی جیسے خیالات ابھرنے لگتے ہیں اور یہ ڈپریشن کا سب سے خطرناک سٹیج ہوتا ہے۔

خوشبو نے بتایا کہ ڈپریشن کے علامات ہر انسان میں مختلف ہوتے ہیں، ڈپریشن کے شکار افراد یا تو بہت زیادہ سوتے ہیں یا ان کی نیند بلکل غائب ہو جاتی ہے، اسی طرح ڈپریشن کی وجہ سے ان کا وزن بھی یا تو بہت بڑھ جاتا ہے یا کھانے سے جی بھرنے کی وجہ سے ان کا جسم کمزور پڑ جاتا ہے۔

یہ چند ایسی نشانیاں ہیں جو اگر کسی انسان میں پائی جائے تب اسے ڈپریشن کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے ڈپریشن اور اداسی میں فرق ہے، دو یا تین دن کی اداسی کو ہم ڈپریشن کا نام نہیں دے سکتے, ڈپریشن ایک خاص بیماری ہے جبکہ اداسی آپ کے موڈ سوینگس پر انحصار کرتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت تقریباً 280 میلین کے قریب لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں جن میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہیں۔

ڈپریشن خواتین میں مردوں کے مقابلے میں کیوں زیادہ ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خوشبو نے بتایا کہ ان کے پاس کئی ایسی خواتین آئی ہے جو صرف اس وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوئی کہ انہیں مسلسل شادی نہ ہونے کے تانے دئیے جا رہے تھے، کہ عمر بڑھتی جا رہی ہے، خاندان میں سب کے رشتے ہو گئے بس اسی کا نہیں ہو رہا۔

اس کے علاوہ اولاد نہ ہونے کے تانے، جہیز نہ لانے یا کم لانے کے طعنے، خوبصورتی اور بدصورتی جیسے ٹونٹ بھی اگر مسلسل مارے جائے تو کوئی بھی نارمل شخص ڈپریشن کا شکار ہونے میں وقت نہیں لیتا۔

خوشبو کے مطابق ڈپریشن کی وجوہات پر اگر بات کی جائے تو اس کی کچھ وجوہات یہ ہیں کہ یا تو فیملی میں مسلسل ڈپریشن کا مسئلہ رہا ہوتا ہے جس میں آپ میں ڈپریشن کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ (مگر ایسا ضروری نہیں ہے) یا اگر آپ سٹوڈنٹ ہیں اور سٹڈی کا سٹریس ہے تب بھی ڈپریشن کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے بتایا کہ آج کل جو ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سامنے آتی ہے وہ لو افیرز کی وجہ سے ہوتا ہے۔

خوشبو نے بتایا کہ زیادہ تر کیسز ان کے پاس یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے آتے ہیں جن میں اہم وجہ بروکن لو افئیرز ہوتا ہے۔

ڈپریشن ایک بیماری ہے جو آپ کی جان بھی لے سکتا ہے لہذا خود کو اس سٹیج تک پہنچانے سے پہلے ضروری ہے کہ کسی قسم کی تبدیلی محسوس کرنے پر بر وقت اسکا اعلاج کرایا جائے۔ لوگوں میں بھی یہ شعور پیدا کرنا چائیے کہ ڈپریشن یا دماغی امراض کو پاگل پن کا نام دے کر اور اس ڈر سے لوگ کیا سوچیں گے، خود کو اعلاج کے بغیر نہ چھوڑیں۔

یہ پاگل پن نہیں بلکہ ایک بیماری ہے اور ہر بیماری کا اعلاج ممکن ہے۔

حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button