تحفظ کے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے صحافی مسائل کا شکار
کامران علی شاہ
ملک اسماعیل پشاور میں پشتو زبان کے نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گزشتہ چھ سال سے کام کر رے ہیں۔ انہیں کئی خبروں پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا رہا۔ 24 نومبر 2018 کو یونیورسٹی آف مردان میں لیکچرارز کی بھرتیوں میں کرپشن کی خبر چلانے پر گورنر خیبر پختونخوا نے نوٹس لیا جس کے دوسرے دن 25 نومبر 2018 کو ملک اسماعیل کے خلاف یونیورسٹی کی جانب سے پیمرا میں کیس دائر کیا گیا۔ جبکہ ایف آئی اے میں خبر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے خلاف سائبر کرائم قانونین کے تحت کیس درج کیا گیا۔ تاہم ایف آئی اے میں انکوائری آفیسرز کے تبادلوں اور مدعی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ کیس سرد خانے کی نذر ہوچکا ہے۔
نحقی آئی ہسپتال کی جانب سے ہرجانے کا نوٹس ملا لیکن چینل اور اسپتال انتظامیہ نے بات چیت سے مسئلہ حل کرکے مفاہمت کرلی۔ 28 ستمبر 2019 کو جلال کلی مردان میں بچی کے ساتھ زیادتی کی خبر دینے پر ایک ہفتہ بعد اینٹی کرپشن میں 83 لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام لگا کر کیس بنایا گیا تاہم اس کیس میں فریقین کے درمیان مصالحت ہوچکی ہے جس کے بعد اس کیس کو بند کردیا گیا ہے۔ اسی طرح پشاور میں ڈی ایس پی سردار حسین کے قتل پر جائے وقوعہ سے پروگرام کرنے پر کالعدم تنطیم کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی۔ اسی طرح پشاور کے خیبر ٹیچنک ہسپتال کے آئی ڈیپارٹمنٹ سے کارنیہ چوری ہونے کی خبر دینے پر بھاری ہرجانے کا نوٹس دیا گیا جس کا کیس اس وقت پشاور کے سیشن عدالت میں چل رہا ہے تاہم ایک عرصہ سے پیشی کے لئے تاریخ نہیں دی گئی ہے۔
ملک اسماعیل کا کہنا ہے کہ "کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے اور خبر کی وجہ سے کئی لوگ میرے جانی دشمن بن گئے ہیں اور کئی لوگوں اور اداروں کی جانب سے نوٹسز کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا اب معمول بن گیا ہے”۔
یہ صرف ملک اسماعیل کی کہانی نہیں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں کئی صحافی اسطرح کے واقعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 سے 2023 تک 100 سے زائد صحافیوں کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز موصول ہوئی۔ براہ راست دھمکیاں دی گئی اورانکے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات کا اندارج کیا گیا۔ اسی کے ساتھ کئی صحافی شک کی بنیاد پر پولیس اور سیکورٹی اداروں کے مہمان بھی بنے۔
یہ بھی پڑھیں۔ خیبر پختونخوا کی خواتین صحافی عملی صحافت سے کیوں دور ہونے لگی
خیبر پختونخوا کی خواتین صحافیوں میں ڈیجیٹل میڈیا کا رجحان بڑھنے لگا
کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ” 2022 میں انسانی حقوق کی صورتحال "کے مطابق ضلع خیبر سے خادم آفریدی کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا جبکہ لوئر دیر کے مقامی صحافی احسان اللہ شاکر سے پولیس کے ایلیٹ فورس نے طلباءاحتجاج کے دوران کوریج کرنے پر کیمرہ اور موبائل چھین لیا۔
پشاور کے سینئر صحافی مسرت اللہ جان نے 10 جون 2023 کو طہماس خان سپورٹس سٹیڈیم کے مسجد میں چوری کی بجلی استعمال کرنے کی خبر دی جس پر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی جانب سے بلیک میل کرنے اور پیچھا کرنے کا الزام لگا کر تھانہ فقیر آباد میں ایف آئی آر درج کرنے کے لئے درخواست دے دی تاہم اب اس معاملے میں صلح ہوچکی ہے۔ سوات سے نجی ٹی وی چینل کے نمائندہ صحافی فیاض ظفر کے خلاف ضلعی پولیس سربراہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے اور سرکاری اداروں کے خلاف بیانات لگانے کا الزام لگا کر 30 اگست 2023 کو اے سی و ڈی سی کے انتظامی اختیار 3 ایم پی او کے تحت گرفتاری کے لئے خط لکھا جس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سوات نے مینٹنس آف پبلک آرڈر (3ایم پی او)کے تحت گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دئے۔ فیاض ظفر کو پولیس نے 30 اگست کو مینگورہ میں واقع انکے دفتر سے گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا تاہم بعد میں سینئر صحافیوں اور نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی مداخلت پر انہیں 31 اگست 2023 کو جیل سے رہا کیا گیا۔ فیاض ظفر نے بتایا کہ انہیں امن ،سلامتی اور انسانی حقوق کے لئے ریورٹنگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ انہوں نےا س عزم کا بھی اظہار کہ اپنی سرزمین کی خاطر ہر وقت اور ہر قسم کے قربانی کے لئے تیار رہوں گا۔
اسی طرح انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے صحافیوں کو کوریج سے روکنے اور زدوکوب کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی سے متاثرہ صحافیوں کے امداد کے لئے انکے ادارے کیا اقدامات اُٹھاتے ہیں۔ نیوز ویب سائٹ ٹی این این کے ایڈیٹر طیب آفریدی کہتے ہیں ہمارے لئے رپورٹر کی زندگی اہم ہے اسلئے حساس خبروں کی اشاعت سے پہلے خطرے کے تمام پہلوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کونٹینٹ رپورٹر کے لئے خطرہ بنتا ہے تو اس کو بھی ہٹا لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی رپورٹر قانونی چارہ جوئی کی زد میں آجائے تو اسکا قومی اور بین الاقوامی صحافتی امدادی اداروں کے ساتھ رابطہ کروایا جاتا ہے تاکہ انہیں قانونی و معاشی امداد دی جا سکے۔ طیب آفریدی نے واضح کیا کہ ادارہ خود بھی رپورٹر پر سٹینڈ لیتا ہے انہیں قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے اورمتعلقہ اداروں کے ساتھ بات کی جاتی ہے ساتھ ہی اگر رپورٹر کو جان کاخطرہ در پیش ہو تو انہیں بیرونی ملک میں پناہ دلوانے میں بھی بھرپور مدد کی جاتی ہے۔
صحافیوں کو اگر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے تو کونسے ایسے قوانین ہیں جس کے تحت وہ تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہر قانون طارق افغان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کر رہاہے تو اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی ہاں اگر کسی جرم میں نامز د ہوجائے تو پی پی سی کے تحت انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
طارق افغان ایڈوکیٹ کہتے ہیں صحافیوں کے خلاف ہتک عزت کے کیسز ہوسکتے ہیں جس میں ہم صحافیوں کے حق میں اور کبھی کبھار مخالفت میں بھی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ اگرصحافتی اصولوں کے منافی کسی کے خلاف خبر نشر یا شائع ہو جائے تو اخبار/نشریاتی ادارے کو یا متعلقہ رپورٹر کو نوٹس دیا جاتا ہے جس کی عدالتی کاروائی عام قوانین کے تحت ہوتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں اکثر اوقات جرگہ کے ذریعے بھی ایسے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔
طارق افغان ایڈوکیٹ بتاتے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے قومی اسمبلی سے پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021 پاس کیا گیا ہے جس کے سیکشن 3 میں زندگی اور تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔ سیکشن 4 میں صحافیوں کو پرائیویسی اور ذرائع ظاہر نہ کرنے کا تحفظ حاصل ہے تاہم ایکٹ کے مطابق صحافیوں کے افعال بھی قانون کے مطابق ہونے چاہئے۔ ساتھ ہی اس ایکٹ کے دفعہ 7 میں تشدد اور ناقابل برداشت رویوں سے تحفظ اور سیکشن 8 میں ہراسگی سے تحفظ دیا گیا ہے۔
طارق افغان کہتے ہیں ایکٹ تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کو اکثر اوقات مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے موجودہ صورتحال میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین نے فریڈم نیٹ ورک کے پریس فریڈم رپورٹ 2023 کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مئی 2022 سے مارچ 2023 تک دکھائے گئے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آبا دصحافیوں کے لئے خطرناک ترین علاقہ ہے جہاں 56 صحافیوں کو تشدد،ہراسگی اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا۔
ناصرحسین کہتے ہے اگر وفاق میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے قوانین موجود ہونے کے باوجود صحافی محفوظ نہیں تو خیبر پختونخوا میں کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ یہاں بھی صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کے تحفظ کے لئے خیبر یونین آف جرنلسٹ کی کوشش سے بل تو صوبائی اسمبلی میں ٹیبل ہوگیا ہے لیکن تحریک انصاف حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود اسمبلی سے پاس نہیں کرایا گیا ہے۔
اس حوالے سابق معاون حصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے پی ٹی آئی حکومت اور سابق وزیر اطلاعات کامران بنگش نے بہت کام کیا تھا۔ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے ڈرافٹ کی تیاری میں خیبر یونین آف جرنلسٹ اور پریس کلبز سے تجاوزیر بھی مانگے گئے تھے لیکن بل اسمبلی میں ٹیبل ہونے کے بعد مزید تجاویز شامل کرنے کے لئے اسمبلی نے اسے ذیلی کمیٹی کے سپرد کیا تھا جس کے بعد ہماری حکومت ختم ہوئی اور اس حوالے سے قانون سازی بھی ادھوری رہ گئی۔
ناصر حسین نے بتایا کہ خبر سے زیادہ قیمتی زندگی ہے۔ خبر دے خبر نہ بنے کیونکہ اگر آپ زندہ ہونگے تو خبر دینگے۔ اس طرح حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھ کر خبر دیا کریں تو بہت سے مسائل پر قابوں پا کر اپنا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن خیبر پختونخوا محمد عمران نے صدر کے ایچ یو جے ناصر حسین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ محکمہ اطلاعات نے ،خیبر یونین آف جرنلسٹ اور پشاور پریس کلب سمیت سینئر صحافیوں کے مشاورت سے 2015 میں اس پر کام شروع کیا ،جس میں اراکین اسمبلی کے ساتھ کئی نشستوں کے بعد بل کو اسمبلی تک پہنچایا گیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صویبہ شاہد نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے قوانین تو ایک طرف تحریک انصاف حکومت نے اجتماعی مفادات کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ صرف اپنے مفاد کےلئے ایوان کو بلڈوز کرکے قوانین بناتے رہے۔ صوبے کے حقوق اور صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اپوزیشن کے اٹھنے والے ہر آواز کو دبایا گیا اور ہمارے احتجاج کے باوجود اکثریت کے زور پراسمبلی طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ کر بے سر وپا قوانین پاس کرائے گئے جس سے صرف حکومت یا انکے خواریوں کا فائدہ ہوا۔
نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔