بلاگزلائف سٹائل

لڑکی تو مجبور ہے جیسا ہم کہیں گے وہ ویسا ہی کرے گی

 

شمائلہ آفریدی

مرد اور عورت دونوں ہی معاشرے کے معمار ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے کردار کو ہٹا کر معاشرتی استحکام و بقاء کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مرد کو اہمیت حاصل ہے تو عورت کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ
” وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ "۔

سنگین مسئلہ یہ ہے کہ گھر سے نوکری، روزی کی خاطر ، اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے جب لڑکی یا خاتون باہر نکلتی ہے تو اسے باہر کی دنیا میں انوکھا ہی سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی ہے۔ الزامات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر کوئی ان کو گرانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی کیلئے اعلی تعلیم حاصل کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتی، کئی کرداروں سے جنگ کر کے تعلیم حاصل کرتی ہے۔ وہ روشن مستقبل کےخواب دیکھتی ہے اور دنیا کی دوڑ میں چلنا چاہتی ہے لیکن جب ایک لڑکی جاب کیلئے نکلتی ہے تو یہ اسان نہیں ہوتا بلکہ اسے دگنے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلی جنگ تو ان کے اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں عورت کا نوکری کرنا بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں نوکری کیلئے منانا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ گھر والوں کی پابندیاں، محلے اور گاوں والوں کی باتیں، علاقے کی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھنے کے بعد دوسرا مشکل مرحلہ جاب کیلئے ہر ادارے کا دروازہ کھٹکانا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمارے معاشرے کی خواتین باہر بہت سے نامناسب رویوں کا سامنا کرتی ہیں لیکن تعلیم اسے پر اعتماد بناتی ہے انہیں ان رویوں سے لڑنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے۔

دفاتر میں تعلیم یافتہ لوگوں کا نامناسب رویہ پریشان کردینے والا ہوتا ہے، دل میں یہ سوال ضرور آجاتا ہے کہ آخر خواتین کیلئے مسائل کب ختم ہونگے ؟؟ آخر خواتین کہاں محفوظ ہوگی؟؟ لڑکی سے دوران انٹرویو میں سکلز ٹیلنٹ پوچھنے کی بجائے نام جگہ کے بعد ذاتی سوال یعنی شادی یا غیر شادی شدہ کا پوچھا جاتا ہے۔ یہ سوال بہت پریشان کردینے والا ہوتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ اسکا جواب کیسے دینا چاہیے۔

مگر کسی شاعر نے کہا ہے کہ

” کہ د زلمو نہ پورا نہ شوہ
گرانہ وطنہ جیناکئی بہ دی گٹینہ”

یہ بھی پڑھیں۔ ترکی کے وزٹ نے مجھے ملازمت سے نکالا

ہم آئے روز دیکھتے اورسنتے آرہے ہیں کہ مختلف دفاتر میں ہراسگی کے واقعات طول پکڑ رہے ہیں۔ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں پایا جانے والا ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہی زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور مرد بری الذمہ ہوجاتا یے۔ مثال کے طور پر موٹروے ریپ سکینڈل ہمارے سامنے ہیں، جہاں ایک خاتوں کیساتھ زیادتی کی گئی مگر جواز یہ بنایا گیا کہ خاتوں گھر سے باہر نکلی کیوں؟ ایسے سینکڑوں ہزاروں مثالیں اور بھی ہیں جہاں مورد الزام خواتین کو ٹھہرایا جارہا ہوتا ہے۔ دفاتر میں بیٹھے اعلی تعلیم یافتہ مرد کی سوچ اتنی کھوکھلی ہوتی ہے کہ اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک لڑکی گھر سے باہر نکلتی ہے تو کتنے مصائب سے گزر کر آتی ہے نا کہ وہ ازاد خیال برے کردار کی ہوتی ہے۔ انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ جیسے اپنے گھر کی خواتین ہماری عزت ہے ویسے جاب کرنے والی خواتین کی بھی عزت کرنی چاہیے۔

دفاتر کا ماحول کچھ اسطرح ہوتا ہے کہ عورت کا احترام و عزت بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے  ہے کہ لڑکی تو مجبور ہے ،بے بس ہے لاچار یے،جو ہم کہیں گے وہ ایسا ہی کرے گی۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ خواتین کو کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اور جو باہر آکر جاب کرتی ہے تو وہ آزاد خیال ہوتی ہے۔  ایسے میں وہ خواتین کو اپنی جائیداد سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ صنفی تعصب کی بنیاد پر ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف لڑکی کیلئے تکلیف دہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان کے کام پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں اور بعض اوقات وہ دل برداشتہ ہو کر نوکری بھی چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ ایسے ناخوشگوار واقعات سے بچنا بھی ہوتا ہے جس کی بنیاد بنا کر خاندان میں رسوائی ہو۔

ایسے کند ذہن برائے نام اعلی تعلیم یافتہ مرد کی تعلیم تربیت پر شک ہوجاتا ہے۔ دفاتر میں موجود چھوٹی سوچ کے حامل افراد کو بھی یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ایک خود دار لڑکی جو گھر سے باہر نکل کر آپ کے دفتر میں جاب کرتی ہے وہ اس لئے نہیں کرتی کہ آپ اسے کھلونا سمجھ بیھٹے۔ اپ کے کھوکھلے الفاظ جملے اس پر کوئی اثر نہیں کرتے وہ جاب چھوڑ دیتی ہے لیکن عزت کا سودا کبھی نہیں کرتی۔
معاشرے میں اخر خواتین کے متعلق رویے کب تبدیل ہوگے ؟؟؟؟ کب یہ فرسودہ نظام تبدیل ہوگا؟
کب یہ منفی سوچ مثبت سوچ میں تبدیل ہوگا؟ باہر کی خواتین کو کب اپنے گھر کی خواتین کی طرح عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ؟
عورت کی مجبوری کا فائدہ کب تک اٹھایا جائے گا؟ کب مرد کو عقل و شعور کی روشنی ملے گی کہ خاتوں کھلوناہ نہیں بلکہ وہ احساسات و جذبات رکھتیں ہیں؟ آخر کب یہ سب ممکن ہوپائے گا؟

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کرے
ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی

کاش کہ یہ نظام تبدیل ہوجائے، کاش کہ مرد سمجھے کہ خاتون بھی انسان ہیں، کاش کہ اس ریاست میں مردو خواتین کو مساوی حقوق مل جائے،کاش عورت کے راستے میں کانٹے بچھانے کی بجائے اسے سپورٹ کیا جائے مگر۔۔۔۔

کاش کہ یہ کاش نہ ہوتا۔۔۔۔۔!

بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ

” ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے”۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button