عام انتخابات میں خیبرپختونخوا میں کس پارٹی کی حکومت کا امکان ہے؟
کیف آفریدی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی پارٹیوں نے جلسے، کارنر میٹنگز اور ورکرز کنونشز سمیت سیاسی مہمات کو تیز کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں پر بھی بڑی بڑی سیاسی پارٹٰیاں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ کونسی پارٹٰی مقبول ہیں اور عام انتخابات میں کامیابی سمیٹے گی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم جمعیت علمائے اسلام پارٹی بہت سرگرم نظر آرہی ہیں۔ دیکھا جائے تو پشاور میں دوسری پارٹٰیوں سے لوگ جوک درجوک جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہو رہے ہیں۔
پچھلے جمعے یعنی 17 نومبر کو جمعیت علمائے اسلام نے پشاور کے وزیر باغ گراونڈ میں جلسے کا انعقاد کیا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے اہم عہدیداران حاجی عمر خان اور ملک نور رحمان سمیت پی ٹی آئی کے رمضان آفریدی اور دوسرے کئی سیاسی افراد سیمت سینکڑوں کارکنان جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہو گئے۔ وزیر باغ جو کہ عوامی نیشنل پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کی ایک تاریخ بھی رہی ہے۔ بشیر احمد بلور سے لیکر ثمر بلور تک اس حلقے پر حکمرانی کر چکے ہیں۔ تاہم 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اور 2018 کے الیکشن میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی سیٹٰیں یہاں سے جیتی تھی۔ تاہم ضمنی الیکشن میں ہارون بلور کی بیوی ثمر بلور نے پی ٹی آئی امیدوار کو شکست دیکر تاریخ رکم کر دی اور پہلی بار خیبرپختونخوا میں کسی خاتون نے جنرل سیٹ جیتا۔
کیا گورنر غلام علی جمعیت پارٹی کے لیے سرگرم ہیں؟
اس حوالے سے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان اور سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلون نے کہا کہ جو ناظمین یا عہدہ دار پارٹی چھوڑ کر دوسرے پارٹی میں جارہے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جو عوامی نیشنل پارٹی سے قومی اور صوبائی ٹکٹیں مانگ رہے تھے۔ پارٹٰی کی طرف سے ٹکٹ نہ دینے پر انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی سے راہیں جدا کر دی۔ اب جس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہیں شاہد وہ ٹکٹیں بانٹیں ان میں۔ "ثمر ہارون بلور نے کہا”
ایک سوال کے جواب میں ثمر ہارون بلور کا کہنا تھا کہ حاجی غلام علی جب سے گورنر بنے ہیں وہ ہماری پارٹی کے ورکرز کے ساتھ رابطے میں تھے او گورنر ہاوس کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لیکن میرے خیال میں جو لوگ ہم سے گئے ہیں وہ صرف یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پارٹی نے انکو ٹکٹیں نہیں دی۔ کیونکہ ہر کسی کو پارٹی کا ٹکٹ چاہیے اور ہماری پارلیمانی بورڈ نے بہتر امیدواروں کو ٹکٹیں دی ہیں۔
ثمر ہارون بلور نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن کے دن انکو پتہ چل جائے گا جو لوگ پارٹی کو چھوڑ کے گئے ہیں انکے آنے جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اب بھی حلقے میں عوامی نیشنل پارٹٰی کی ورکرز کی کثیر تعداد موجود ہیں۔ جمعیت والوں نے جو دعوی کیا تھا کہ سینکڑوں ناظمین ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں وہ غلط ہے کیونکہ ٹوٹل 3 سے 5 بندے شامل ہوئے انکے ساتھ۔ میرے خیال میں جو لوگ ٹکٹ کی بنیاد پر پارٹی سے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں تو وہ کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ ثمر بلور کے حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر پشاور میئر کے الیکشن لڑنے والے حاجی شیر رحمان جو کہ پارٹی کا پرانہ ورکر تھا اور انکا اپنا کافی ووٹ تھا وہ بھی مسلم لیگ ن کو پیارے ہو گئے۔ دو مہنے پہلے وہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کی کوشش سے مسلم لیگ نون کو جوائن کر چکے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں اس وقت کونسی پارٹی مقبول ہے؟
ٹی این این سے خصوصی بات کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے سینئر صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ اس وقت اگر دیکھا جائے تو اب بھی پاکستان تحریک انصاف صوبے کی سب سے بڑیٰ جماعت ہے۔ تاہم انکو ایسے لگتا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو موقع نہیں دیا جائے گا۔ انکے امیدواروں کو تنگ کیا جائے گا۔ پکڑ دھکڑ ہو گی۔ انکے خلاف پرچے کاٹے جائنگے وغیرہ کیونکہ آج کل اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کو ورکرز کنونشن کے لیے بھی صحیح نہیں چھوڑتے۔
ابھی ابھی جو چارسدہ میں ورکرز کنونشن ہوا تھا اور جتنی تعداد میں ورکز نے شرکت کی تھی تو میرے حساب سے وہ پشاور میں مولانا فضل الرحمان کے جلسے اور مردان میں بلاول بھٹو زرداری کے جسلے سے بڑا جلسہ تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی بھی پختونخوا میں پی ٹی آئی آگے ہیں۔ پر پی ٹٰی آئی کو مستقبل میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ میری نظر جمعیت علمائے اسلام دوسرے نمبر پر مقبول جماعت ہیں۔ لیکن میری نقطہ نظر میں آنے والے الیکشن میں اتحادی پارٹیوں کی حکومت ہوگی۔ کون سی پارٹٰیوں کا اتحاد ہو گا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ پر مولانا فضل الرحمان اس اتحاد کا حصہ ہونگے اور مجھے لگتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی بھی انکے ساتھ اتحاد میں ہو گی۔ جس طرح یہ سب پہلے پی ڈٰی ایم کا حصہ تھے۔ ابھی جو حالات ہیں وہ الیکشن کے ہیں اس لیے ایک دوسرے کے خلاف جلسے ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں ہوگی۔
جمعیت والے جس امیدوار ٹکٹ دیتے ہیں وہ مذہبی مولوی نہیں ہوتا
ایک سوال کے جواب میں لحاظ علی نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ایک پرانی سیاسی جماعت ہے اور بہت سارے ایشوز کے حل میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم پشاور میں آج کل پارٹی قیادت صحیح نہیں ہے کیونکہ الحاج غلام احمد بلور بوڑھے ہو گئے ہیں اور اب انکے ساتھ کوئی بڑٰی قیادت نظر نہیں آرہی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹٰی کے کارکنان دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے حوالے سے لحاظ علی نے اپنا تبصرہ کچھ یوں بیان کیا کہ جمعیت والے مذہب کی سیاست کر رہے ہیں پر جس امیدوار کو وہ ٹکٹ دیتے ہیں وہ مذہبی مولوی نہیں ہوتا اور یہی جمعیت کی یہی سیاسی کامیابی ہے۔ اور یہ عوام کو قابل قبول بھی ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کا آج کل ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھی اچھا تعلق ہے۔ پر وقت آنے پر واضح ہو جائے گا کہ کونسی پارٹی برسراقتدار ہوگی۔