گزشتہ سال کی نسبت اس سال پولیس پر حملوں میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا میں گزشتہ دس ماہ کے دوران صوبے میں دہشتگردی کے واقعات میں 150 سے زائد پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی تجزیہ کار پولیس فورس کو آسانی سے ہدف بنانے کی وجہ فرنٹ لائن فورس کا ہونا اور افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد مسلح تنظیمیں مزید منظم اور مضبوط ہونا سمجھتے ہیں۔
مطبوعاتی رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت اس سال دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال کے پہلے دس ماہ میں 105 جاں بحق جبکہ 109 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
پشاور میں مقیم صحافی صفی اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ محکمہ پولیس کی جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی جنوری سے 12 نومبر تک صوبہ بھر میں 150 پولیس افسران سمیت 400 سے زائد اہلکار زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔
صفی اللہ نے مزید بتایا کہ شدت پسند حملوں میں سب سے بڑا حملہ پشاور پولیس لائن کا تھا جہاں پر 86 کے قریب اہلکار جاں بحق ہوئے تھے جبکہ دیگر واقعات میں دو ڈی ایس پیز، آٹھ سب انسپکٹرز، حوالدار اور سپاہی جاں بحق ہوئے۔
پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری اکثر مسلح تنظیم تحریک طالبان ہی قبول کرتی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (اکتوبر) میں پاکستان میں 83 حملے ہوئے ہیں جن میں 74 حملے خیبرپختونخوا میں کئے گئے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہر اور سابق پولیس افسر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (ر) سید اختر علی شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ پولیس ایک فرنٹ لائن فورس کے طور پر دہشتگردی سے نمٹنے والی فورس ہے مگر وسائل کی فراہمی، خفیہ معلومات اور تفتیشی نظام میں بہتری وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا جب سے افغانستان میں افغانی طالبان یا امارات اسلامی نے حکومت سنبھالی ہے تب سے پاکستان اور باالخصوص خیبرپختونخوا میں سیکورٹی فورسز کے خلاف دہشتگردانہ کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان خود بھی امریکہ کے ساتھ اپنی جنگ سے فارغ ہوگئے اور وہاں پر پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کردیئے۔’مذاکرات کا مثبت نتیجہ تو نکلا نہیں مگر اس دوران وہ مزید منظم اور مضبوط ہوگئے’ ۔
اخترعلی شاہ کا کہنا ہے ” دوسری وجہ یہ ہے کہ پولیس ہر جگہ پر پبلک (عوام) میں موجود رہتی ہے، انکا کام ہی یہی ہے کہ وہ باہر گشت کریں گے، موبائل پٹرولنگ کریں گے، وہ تو سامنے ہوتے ہیں اور اچانک حملہ آور حملہ کرکے چھپ جاتے ہیں تو اس وجہ سے بھی وہ آسانی سے ہدف بن جاتے ہیں”۔
"تیسری وجہ پولیس کے پاس شائد انفارمیشن کی کمی ہو، انفارمیشن کی کمی اگر ہو اور اچھی انٹیلی جنس نہ ہو تو اس سے بھی نقصان ہوجاتا ہے”۔
سید اختر علی شاہ آگے کہتے ہیں کہ پولیس ایکٹ 1861 میں بن گئی ہے۔ اسی طرح پولیس رولز 1934 میں بنی ہے اور اس میں واضح ہے کہ تھانہ کسطرح کام کرے گا، انٹیلی جنس گیدرنگ کس طرح ہوگی، پولیس اپنے فرائض کیسے سرانجام دیں گے مگر وقت کے ساتھ پولیس بھی اپنی حکمت عملی بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
"9/11 کے بعد بھی پولیس نے اپنی حکمت عملی بہتر کی تو اس کی وجہ سے کافی سارے واقعات بھی کاؤنٹر ہوچکے ہیں مگر اس کے ساتھ اگر تفتیش کا نظام بہتر ہو جائے تو اس کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کو سزائیں بھی ملے گی”۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ افرادی قوت کی کمی مسئلہ نہیں کوالٹی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور کوالٹی یہ ہے کہ انٹیلی جنس اور تفتیشی نظام میں بہتری لائی جائے۔
گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی جاری کردہ اعداد و شمار میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران پاکستان میں سیکورٹی فورسز کے 97 اہلکار جاں بحق اور 114 زخمی ہوئے جبکہ دو اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔
سیکورٹی ماہرین پولیس کی جاری کردہ اعداد و شمار میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماضی کی نسبت حال میں مسلح افراد مزید مضبوط ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر اس کی وجوہات پر موثر تحقیق اور تفتیش کی ضرورت ہے کیونکہ حالات تقاضا یہی ہے۔
طاہر خان نے بتایا "30 جنوری کو پشاور پولیس لائن میں ایک خودکش حملہ ہوا، وہ خودکش سارا دن سڑک پر چادر اوڑھ کر گھومتا رہا، یہاں تک کہ ایک پولیس اہلکار بھی اسے ملا مگر کسی نے اسے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا تو یہی وہ کمزوری ہے جو ہماری نظام اور مانیٹرنگ کی کمزوری ہے اور پھر ان کمزوریوں کا مخالف فریق فائدہ اُٹھا کر حملہ کر دیتے ہیں مگر اس واقعے میں غفلت برتنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور نہ نظام میں کوئی بہتری سامنے آئی۔
انہوں نے افغان مہاجرین کے انخلاء سے دہشتگردی میں اضافے کے تاثر رد کر دیا مگر کہتے ہیں کہ دونوں اطراف سے غیرذمہ دارانہ بیانات ہر ملک اپنے لئے دھمکی سمجھتی ہے جس کے ساتھ بداعتمادی مزید پیدا ہوجاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے افغان طالبان کے وزیردفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘پاکستان اتنا بوئے جتنا وہ کاٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے’، اسی طرح جب نائب وزیرخارجہ شیرعباس ستانکزئی نے کہا تھا ‘پاکستان افغانیوں کے ساتھ مناسب سلوک کرے اور ہمیں مجبور نہ کرے کہ انہیں ردعمل دیں’، اس کے برعکس پاکستان کے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘افغان طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے’۔
وزیراعظم پاکستان نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے لئے افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے مگر افغان طالبان نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات سے دونوں ممالک کے درمیان مزید تلخی پیدا ہوگی۔