خیبرپختونخوا کے سرکاری سکولوں میں علاقائی زبانیں متعارف نہ ہوسکی
آفتاب مہمند
خیبرپختونخوا کے سرکاری سکولوں میں پشتو و دیگر علاقائی زبانیں متعارف نہ ہو سکی۔ محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو آخری مرتبہ وارننگ دیدی۔
محکمہ تعلیم کی جانب سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو بجھوائے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ واضح ہدایات کے باوجود بعض سرکاری سکولوں میں پشتو یا دیگر علاقائی زبانیں نہیں پڑھائی جا رہی جبکہ یہ انکے کورسز کا باقاعدہ حصہ قرار دیا جا چکا ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر محکمہ تعلیم کے حکام نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران سکولوں میں بارہویں تک پشتو یا دیگر متعلقہ علاقائی زبانیں پڑھانے کا فوری طور پر انتظامات کریں۔ انتظامات کرکے محکمہ تعلیم کو آگاہ بھی کیا جائے۔ احکامات پر درآمد نہ ہونے کی صورت میں کاروائی کیجائے گی۔
یاد رہے کہ محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے گزشتہ ماہ تمام سرکاری سکولوں میں پشتو یا دیگر علاقائی زبانیں پڑھانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اسی طرح صوبے کے تمام نجی تعلیمی اداروں کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر خیبر پختونخوا کے ماہر تعلیم اباسین یوسفزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ سال 2012 میں اس وقت کی خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کرکے قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت خیبر پختونخوا میں گریڈ ون یعنی جماعت اول سے لیکر بارہویں کلاس تک بچوں کو تعلیم پانچ مخلتف زبانوں میں دینا لازمی قرار دیا گیا ہے جسمیں پشتو، ہندکو، سرائیکی، کوہستانی اور کوہار (چترالی زبان) شامل ہیں۔ بدقسمتی سے مزکورہ قانون پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا حالانکہ اس قانون پر عمل درآمد سال 2018 تک ہی ہونا تھا۔
اباسین یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ 2012 میں جب قانون بنا تو انکی سربراہی میں کیریکولم بنا تھا۔ اسی کیریکولم کے تحت تمام علاقائی زبانوں کے 120 مختلف کتابیں لکھ کر تعلیمی کورس میں شامل کرنا تھی جسمیں سے زیادہ تر کتابیں لکھی جا چکی ہیں، بعض کتابیں ابھی لکھنا باقی ہیں۔ 2012 میں بنائے گئے قانون کے مطابق پہلے صوبے کے تمام سرکاری اور بعدازاں نجی تعلیمی اداروں میں فیصلے پر عمل درآمد کروانا تھا۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر صوبہ بھر سے 40 اساتذہ کو باقاعدہ ٹرین کیا گیا تاکہ وہ علاقائی زبانوں میں بچوں کو کورسز پڑھا سکیں۔
اباسین یوسفزئی کے مطابق خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ایک مرتبہ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو قانون پر عمل درآمد کا بتایا لیکن پرویز خٹک نے آمادگی ظاہر نہیں کی جسکی وجہ سے آج تک مزکورہ قانون کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ سابقہ وفاقی حکومت نے ملک میں قومی نصاب رائج کرکے بڑی غلطی کی ہے جیساکہ قومی نصاب بنانے سے علاقائی زبانوں کو تقویت ملنے کی بجائے الٹا انکو نقصان ہو رہا ہے۔ اب بچوں کو ہم اپنے روایات، قومی ہیروز، تاریخ، يا مذہب کے بارے میں ساری پرانی یا پرائے کہانیاں ہی پڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح اپنی زبان میں کتابیں نہ ہونے کیوجہ سے بچوں کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قومی نصاب بناتے وقت ہمارے ٹرین شدہ اساتذہ و متعلقہ ماہرین تعلیم کو اعتماد میں نہ لیکر علاقائی زبانوں میں تعلیم دلوانے کے فیصلے کو دھچکا پہنچایا گیا۔ چین، جاپان، امریکہ یا یورپ نے اگر ترقی کی ہے تو وہ اپنے ہی زبانوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سارا نصاب اسکے برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ علاقائی زبانوں میں تعلیم نہ ہونے کیوجہ سے ہمارے طلبا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ علاقائی زبانوں میں پڑھانے سے تعلیمی شرح میں بھی اضافہ ہوگا جیسا کہ بچوں کو اپنے ہی زبانوں میں تعلیم دلوانے سے انکو باآسانی سمجھ آئے گی اور وہ بہتر انداز میں سیکھ پائیں گے۔ جو بچے تعلیمی اداروں سے باہر بھی ہیں ان پر بھی ایک اچھا اثر پڑے گا اور وہ بھی سکولوں کیجانب راغب ہو جائیں گے۔
اباسین یوسفزئی کا مزید بتانا تھا کہ اپنی زبان میں تعلیم نہ دینے کی وجہ سے ہم پروفیشنل فیلڈز میں جا کر پھر کافی مسائل و مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ سال 2018 تک اگر صوبائی اسمبلی کے قانون پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج تعلیمی میدان میں ہم کافی ترقی کر لیتے۔ لہذا محکمہ تعلیم نے صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو جو احکامات جاری کئے ہیں وہ فوری طور پر علاقائی زبانوں میں تعلیم دلوانے کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔