نواز شریف کی واپسی اور مسلم لیگ کی مشکل
محمد فہیم
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر خیبر پختونخوا کے ہر ضلع سے ایک ہزار کارکن لے جانے کا ٹاسک پارٹی تنظیم کو حوالہ کردیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا نے ہر ضلع کی تنظیم کو ایک ہزار بندے لانے کا ٹاسک حوالہ کردیا ہے۔
اس ضمن میں مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائینگی جبکہ لائزان کیلئے بھی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آئیں گے۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کی جانب سے تاریخی استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور لاہور ایئر پورٹ سمیت دیگر مقامات پر کارکنوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلئے 10لاکھ سے زائد کارکن اکٹھے کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان 10 لاکھ میں تمام توجہ پنجاب پر ہوگی تاہم گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی کارکن لائے جائینگے۔
خیبر پختونخوا سے 35 ہزار کارکن لانے کا ہدف رکھا گیا ہے جس میں ہر ضلع سے ایک ہزار کارکن لانے کی کوشش کی جائیگی۔ یہ ذمہ داری ضلعی صدر اور جنرل سیکرٹری کی ہوگی کہ وہ اس حوالے سے ایک ہزار کارکن لانے کیلئے تمام تیاریاں کرے اور انکی شرکت یقینی بنائے۔
لاہور میں عرصہ دراز سے کام کرنیوالے سینئر صحافی ناصر مہمند کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی اب وہ مقبولیت نہیں رہی جو کسی وقت میں ہوا کرتی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ پارٹی کے اندر بھی اختلافات ہیں اور پارٹی سے باہر بھی ہیں۔ جب تک میاں نواز شریف سٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ تھا تو عوام میں انکی مقبولیت تھی لیکن جب سے مسلم لیگ ن سٹبلشمنٹ کیساتھ مل گئی تب سے عوام میں انکی پزیرائی کم ہوئی ہے۔ ناصر مہمند نے کہا کہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان کہ وہ فوج کے آدمی ہیں اس نے پارٹی کو پنجاب میں بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے اور اب پارٹی دوباہ سنبھل نہیں پارہی ہے۔ 21 اکتوبر کے جلسے کے حوالے سے انتظامات تو کئے گئے ہیں لیکن بندے لانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے ٹکٹ ہولڈرز کو اس بات کا پابند بنا دیا ہے کہ وہ قافلے لے کر آئیں گے اور مینار پاکستان کا پارک بھرنا بلاشبہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
مریم نواز کے پشاور دورہ کے موقع پر بڑی تعداد میں پارٹی رہنما اجلاس سے غائب رہے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق 18سے زائد اضلاع کے صدور اور جنرل سیکرٹری غائب تھے۔ مریم نواز نے اس حوالے سے شدید برہمی کا بھی اظہار کیا ہے اور پارٹی کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے اب نوجوانوں کی جانب توجہ کرلی گئی ہے۔ مریم نواز نے پشاور میں 131 نوجوانوں کے خود انٹرویو کئے اور انہیں سوشل میڈیا کیلئے پارٹی میں شامل کرلیا ہے۔ اور ان سے یہ بھی پوچھا ہے کہ انہیں کون یہاں تک لایا ہے۔ مریم نواز پارٹی کے ناراض کارکنوں کے حوالے سے بھی پرامید ہیں کہ والد کی واپسی کے بعد وہ بھی مان جائیں گے۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن تنزیلہ مظہر کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ تقسیم کا شکار ہے اور کئی رہنما تو پارٹی بھی چھوڑ گئے ہیں۔ اسی طرح کئی رہنماﺅں نے میڈیا میں آکر بیان دیدیا اور وہ پارٹی کی صوبائی قیادت سے ناراض ہیں جس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن نے 10لاکھ بندے اکٹھے کرنے کا دعوی کیا ہے 10لاکھ نہ سہی مسلم لیگ ایک لاکھ تو اکٹھا کرہی لے گی۔ لیکن اصل بات بیانیہ ہے جو اس وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بغیر بیانیہ کے انتخابات میں اترنا مسلم لیگ ن کیلئے مشکل ہوگا۔ اس وقت بیشتر جماعتیں علاقائی ہوکررہ گئی ہے۔
مسلم لیگ کا بھی گڑھ صرف پنجاب ہی ہے لیکن پارٹی اس وقت اتنی مضبوط نہیں ہے۔ پارٹی میں دھڑے بندی اور ناراضگیاں ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد یہ ممکن ہے کہ ناراض رہنماﺅں کو منایا جا سکے۔ میاں نوازشریف لندن بیٹھے ہیں اب سب تو وہاں جا کر مل نہیں سکتے لیکن جب وہ واپس آجائینگے پھر ان کیلئے ممکن ہوگا کہ وہ ناراض رہنماﺅں کو قریب لے آئیں۔