کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ہمیں سکون کیوں ملتا ہے؟
خوشبو
میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ دو معصوم بچے منہ بنائے پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے کہ چھوٹے والے بچے سے برداشت نہ ہوسکا اور شکوہ کر دیا کہ ٹیچرز ہمیں اتنا سارا ہوم ورک کیوں دیتے ہیں، کیا ہم ہر وقت پڑھتے رہیں گے، کیا پڑھنے کے علاوہ ہمیں کھیل کھود کی اجازت نہیں ہے؟ میں نے مسکرا کر بچے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اسے چھپ چاپ پڑھنے کو کہا۔ میں ان دو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں، ان کے والدین سرکاری ملازم ہیں اور بچے سکول سے چھٹی کے بعد مجھ سے ٹیوشن پڑھتے ہیں۔
جون کا مہینہ چل رہا تھا اور گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ عام طور پر اس وقت کافی خاموشی ہوتی تھی لیکن اس وقت میں سکون میں نہیں تھی کیونکہ ساتھ والے کمرے سے بچی کی مسلسل رونے کی آواز مجھے پریشان کر رہی تھیں۔ یہ بچی ان دو بچوں کی چھوٹی بہین تھی جن کی عمر تقریبا 3 سال ہو گی۔
مجھ سے بچی کا رونا مزید برداشت نہ ہوا اور میں ان کے کمرے میں چلی گئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک ملازمہ زمین پر بیٹھی جھولے میں پڑی بچی کو مسلسل چھپ اور سلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ملازمہ زور زور سے جھولے کو جھولا رہی تھی جس سے بچی کے اضطراب میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ میں نے ملازمہ کو باہر جانے کو کہا اور بچی کو اپنی گود میں لیکر اپنے قریب کر دیا اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گود میں جھولانا شروع کر دیا بچی اب پرسکون ہو گئی اور انکھیں بند کرکے سو گئی جس کے بعد بچی کو لیٹا کر میں واپس بچوں کو پڑھانے لگی۔
یہ بھی پڑھیں: جب ایک گرجتی آواز میں بچوں کی ننھی مسکراہٹیں کھو گئی
اس دوران میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے کہ ایسا کیا تھا جس نے بچی کو بے سکون کیا ہوا تھا، میرے گود میں آنے کے بعد بچی کیوں پر سکون ہو گئی، کیا بچی کو ماں (ممتا) کی ضرورت تھی، اگر ایسا تھا تو بچی میرے پاس کیوں پر سکون ہو گئی، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بچہ بیمار پڑ جاتا ہے تو وہ زیادہ تر ماں کے قریب رہنے کی کوشش کرتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ صرف بیٹھ کر ہمیں سکون اور راحت جبکہ کچھ لوگوں کے ساتھ دو گھڑی بیٹھنے سے ہمیں عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ہے؟
ان سوالوں نے مجھے عجیب سی الجھن میں ڈال دیا تھا کہ کچھ تو ہے جو ہم انسانوں کو بنا لفظوں کے ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہیں۔ پھر ایک دن خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب ‘آواز دوست’ میرے نظر سے گزری اور مجھے میرے سوالوں کے جوابات مل گئے۔
ہم انسانوں کے جسم سے خاص قسم کے شعاعیں نکلتی ہیں جیسے AURA کہا جاتا ہے۔ خواجہ شمس الدین عظیمی نے AURA کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ‘کہ جس طرح ہم کپڑوں سے اپنے جسم کو ڈھانیتے ہیں ایسی طرح ہمارے جسم نے ہمارے روح کو ڈھانپہ ہوا ہے۔ روح اصل میں روشنی/توانائی ہے۔ اس روشنی کے تاروں سے جو توانائی نکلتی ہے اور انسان کے جسم کے اردگرد ایک magnetic field بناتی ہے اسے AURA کہا جاتا ہے۔ روشنیوں کے جن تاروں سے AURA بنا ہوا ہے اس کے اندر بجلی (Electricity) دوڑتی ہے جس سے ہر شخص اختیاری اور غیر اختیاری طور پر متعارف ہوتا ہے اور اس بجلی کے function سے ہر آدمی متاثر ہوتا ہے۔’
آپ سب نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کچھ عرصے دور رہنے کے بعد جب ماں اپنے لخت جگر کو سینے سے لگاتی ہے تو سینے کے اندر غیر مرئی لہریں منتقل ہوتی ہیں اور یہ لہریں تار برقی نظام کے تحت روشنی کے تانے بانے کو اپنی گزرگاہ بناتی ہوئی جب دماغ تک پہنچتی ہے تو ایک سرور سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف ماں کو بلکہ بچے کو بھی راحت اور سکون ملتا ہے۔ اسی طرح جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں تو ان کو بھی ایک عجیب سا سکون ملتا ہے۔ ان کے جسموں سے نکلنے والی لہریں آپس میں مل کر resonance کی حالت میں آ جاتی ہیں جس سے انسان کو اطمینان اور سکون ملتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ بچی میری گود میں پرسکون کیوں ہوئی؟ میری گود میں آنے کے بعد پر سکون اس لیے ہوئی کیونکہ اُسے ماں (ممتا) کی ضرورت تھی۔ میں اُس کی ماں نہیں تھی لیکن جس خلوص اور محبت سے میں نے بچی کو گود میں اُٹھایا اور اپنے سینے کے قریب کر لیا تو میرے جسم سے مثبت AURA نکلا جسے اُس کے جسم نے محسوس کیا اور اسے سکون ملا۔ جو لوگ ہمارے ساتھ مخلوص ہوتے ہیں اور دل سے محبت کرتے ہیں اُس کے ساتھ ہمیشہ ہمیں ایک انجانہ سا سکون ملتا ہے اور ہم لاشعوری طور پر اُن کی مثبت توانائی کو محسوس کرتے ہیں۔ AURA کا تعلق روح سے ہے اور روح ہمارے قلب (دل) کو توانائی دیتی ہے۔ چونکہ ہمارے جذبات (محبت، نفرت، خلوص، کینںہ وغیرہ) کا مرکز بھی دل ہوتا ہے اور دل کا آئینہ آنکھیں ہوتی ہیں جبکہ جو لوگ ہمارے ساتھ مخلص ہوتے ہیں اور ہمارے لیے نیک جذبات رکھتے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ ہمیں عجیب سا سکون ملتا ہے۔
ماں کی گود میں سر رکھ کر انسان اپنے سارے غم اور پریشانیاں کیوں بھول جاتا ہے؟ بچہ بیماری میں ماں کی گود سے کیوں نہیں اترتا؟ کیوں کہ ماں سے بڑ کر پر خلوص اور محبت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ ماں کی گود میں ہیلنگ healing کی طاقت ہوتی ہے اور وہ اسی AURA سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ایک عورت ماں بنتی ہے تو حمل کے 120 دن بعد یعنی چوتھے مہینے میں اُس کا بچہ باقاعدہ سانس لینے لگتا ہے، یعنی اُس میں روح پھونک رہی جاتی ہے۔
یہاں سے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ روحانی تعلق بننا شروع ہو جاتا ہے۔ ماں اپنے بچے کی حرکت کو محسوس کر سکتی ہے جس سے ماں کو عجیب سی خوشی اور تسکین ملتی ہے۔
لو میز روسین، جو Center for creative parenting کے بانی ہے، کا کہنا ہے کہ چوتھے مہینے کے بعد سے بچہ سُن سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے، ماں کے جذبات کو سمجھ سکتا ہے اور اس سے اثر انداز بھی ہوتا ہے، اس دوران ماں جو سنتی ہے, سوچتی ہے یا جو experience کرتی ہے اُس کا اثر بچے پر ہوتا ہے۔
ریسرچ کے مطابق اگر حمل کے دوران ماں کو ذہنی اذیت کا سامنا ہوتا ہے (جیسے کہ زیادہ رونا ، پریشان ہونا اور Stress لینا) تو اس سے بچے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، بعد میں بچے کو بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ریسرچیز یہ بھی کہتی ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے حمل میں ہوتا ہے تو اس میں والدین کے جذبات خاص طور پر اپنی ماں کے جذبات کو محسوس کرنی کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔
یہ بات بھی تجربہ میں آئی ہے کہ بچہ جسمانی ساخت اپنے باپ سے اور نفسیاتی ساخت اپنی ماں سے لیتا ہے چونکہ چار ماہ کے بعد سے بچے کا اپنی ماں سے روحانی اور نفسیاتی تعلق بن جاتا ہے اس لئے بچہ ماں کے ہر عمل اور جذبے سے اثرانداز ہوتا ہے۔
ماں کو کیا کرنا چاہیے کہ بچہ صحت مند ہو؟
1- ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول مثبت رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اپنے اندر کے ماحول کو اور ذہنی سکون برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ ماں کے لئے اپنے بچے سے بڑ کر کچھ نہیں ہوتا۔
2۔فارغ وقت میں کسی بر سکوں مقام پر بیٹھ کر یا لیٹ کر خاموشی سے آنکھیں بند کرکے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنے بچے کو محسوس کرنے کی کوشش کرے۔ اپنے ہاتھ سے آہستہ آہستہ مساج بھی کرتے رہے اور اپنے بچے کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرے کیونکہ بچہ آپ کے touch کو اور آواز کو کسی حد تک سُن سکتا ہے۔
3۔ اس کے علاوہ تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ یہ ایک قسم کے Meditation بھی ہے۔ جب قرآنی آیات ماں کے کانوں سے ہوتے ہوئے حمل تک پہنچی ہے تو وہاں موجود خاص قسم کے fluids، جسے Amniotic fluid کہتے ہیں جس میں بچہ محفوظ ہوتا ہے، وہ اس آواز کو Amplify کرتا ہے جس سے خاص قسم کے frequency پیدا ہوتی ہے جو بچے کو ہر قسم کے بیماری سے بچاتی ہیں اور بچے کے ذہنی اور جسمانی نشونما میں مدد دیتی ہے۔
4۔ پیدائش کے بعد بھی اگر بچہ بیمار ہو یا بے چینی یا اضطراب کا شکار ہو تو ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے گود میں سینے کے قریب رکھے کیونکہ ماں کی گود میں جو healing کی طاقت ہوتی ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں ہے۔
ہر عورت کے اندر ممتا موجود ہوتی ہے جبکہ عورت کے زندگی میں pregnancy (حمل) ایک خوبصورت اور منفرد phase ہوتا ہے۔ اس کے ہر لمحے کو بھر پور طریقے سے جینا چاہئے۔
خوشبو ایک ماہر نفسیات ہیں اور ٹی این این کے لیے مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔