لنڈی کوتل سیلاب، جو گھروں کے ساتھ خواب بھی بہا لے گیا
افتخار خان
"میرا خواب تکمیل سے پہلے ہی سیلاب کی نذر ہو گیا۔” 65 سالہ انور خان آفریدی کی زندگی کی آخری خواہش اپنے گھر کی تعمیر تھی جس کے لئے انہوں نے کئی سالوں سے مختلف طریقوں سے کچھ پیسے اکٹھے کر لئے تھے اور 12 لاکھ کی لاگت سے کچھ حصہ تعمیر بھی کر لیا تھا۔ لیکن 15 جولائی کی صبح ایک سیلابی ریلہ آیا اور ان کے اس نئے تعمیر شدہ گھر کو بہا لے گیا۔
قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں اس سیلاب نے انور خان کے گاؤں نیکی خیل سمیت دیگر درجنوں گاؤں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ اس فلیش فلڈ کی وجہ سے شلمان اور علی مسجد میں دو بچے بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔
انور خان اپنی بیوی اور 10 بچوں کے ساتھ اپنے بھائی کے ساتھ مشترکہ گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ جائیداد کی تقسیم کے وقت یہ گھر ان کے بڑے بھائی کے حصے میں آیا۔ انور خان کو اپنے لئے کچھ فاصلے پر برساتی نالے کے کنارے نیا گھر تعمیر کرنا ہے۔
"مشترکہ گھر میں صرف 4 کمرے ہیں اور ہم مجموعی طور پر 29 افراد ہیں۔ میرے دو بیٹے بھی شادہ شدہ ہیں۔ مزید اس گھر میں ہمارا گزارہ تقریباؑ ناممکن ہے۔” انور خان نے بتایا۔ "گھر کی تعمیر کے لئے میں نے 10 لاکھ روپے قرض لیا تھا اور چاردیواری کی تکمیل کے بعد بڑی خوش تھی کہ فی الحال دو یا تین کمرے بنوا کر یہاں منتقل ہو جائیں گے اور مزید تعمیر بعد میں کریں گے لیکن انسان کا اور اللہ کا ارادہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔”
نیکی خیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پیروخیل کے کلیم اللہ شنواری کی کہانی بھی انور خان کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ 38 سالہ انور خان ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور اپنے 9 بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ 15 جولائی کی صبح ان کے لئے بھی کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ کہتے ہیں "گھر سے ملحقہ برساتی نالے سے پانی ہمارے گھر کے اندر داخل ہو گیا اور چاردیواری گرا دی۔ میں بھاگ کر بچوں کے پاس گیا اور انہیں کمرے سے نکال لیا تو جیسے ہی ہم باہر نکل آئے چند ہی منٹوں میں وہ کمرہ بھی زمین بوس ہو گیا۔”
کلیم اللہ شکر گزار ہیں کہ گھر منہدم ہونے کے واقعے میں وہ بچوں سمیت محفوظ رہے لیکن گھر کی تعمیر کے لئے فکرمند بھی ہیں۔
کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے زندگی میں اتنی تیز بارش کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بارش اتنی تیز تھی کہ برساتی نالہ سامنے پہاڑی سے اپنے ساتھ بہت سا ملبہ بھی بہا لایا جس کہ وجہ سے پہاڑی کے دامن میں بنا تالاب بھر گیا اور کنارے ٹوٹنے کے ساتھ ہی پانی ہمارے گھروں کے اندر داخل ہو گیا۔
پیروخیل میں مزید کئی گھروں کو بھی اس سیلابی ریلے سے کافی نقصان پہنچا ہے۔ کلیم اللہ کہتے ہیں کہ اس برساتی نالے میں ان کی یاد کے مطابق یہ پہلا سیلاب آیا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اب یہ بار بار آئے گا کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ پانی جب ایک جگہ سے گزرتا ہے تو وہاں اس کے بار بار آنے کے خدشات ہوتے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق 15 جولائی کو لنڈی کوتل میں آئے فلیش فلڈ کی وجہ سے 4 گھروں اور ایک سکول کی بلڈنگ کو نقصان پہنچا جبکہ مقامی زرائع کا کہنا ہے کہ اس سیلاب میں 50 سے سے زائد گھر منہدم ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے جن میں 10 تک لنکس روڈ اور درجن بھر پُل شامل ہیں۔
انور خان اور کلیم اللہ کے گھروں سمیت سیلاب میں تباہی سے دوچار ہونے والے تمام تعمیرات کو دیکھا جائے تو زیادہ وہ ہیں جو دریا اور برساتی نالوں کے ساتھ ملحقہ ہیں۔
پاکستان پچھلے کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبرد آزما ہے جن میں سیلاب، گلیشیئرز کا پگھلنا، بے ترتیب اور تباہ کن بارشیں، خشک سالی اور گرمی کی شدت میں اضافہ سرفہرست ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے ہر سال نہ صرف کئی جانیں جاتی ہیں بلکہ معیشت کو بھی بڑا نقصان پہنچتا ہے۔
حکومت پاکستان کے مطابق صرف پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب میں ملک کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ رواں برس پھر خیبر پختوںخوا اور پنجاب کے کئی اضلاع سیلاب کی زد میں ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دنیا کے تقریباً تمام ممالک پر یکساں ہوتے ہیں لیکن زیادہ نقصانات پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ممالک کو پہنچتے ہیں جہاں غربت، کمزور معیشت، کمزور انفراسٹرکچر، حکومتی پالیسیوں کا عدم نفاذ، اور عوام میں موسمیاتی تبدیلی بارے کم علمی ہو۔
قدرتی و انسانی آفات کے وقت بہتر منصوبہ بندی کے ماہر (ڈزاسٹر منیجمنٹ سکالر) معروف آفریدی کا کہنا ہے کہ زلزلہ، سیلاب اور طوفان سمیت تمام قدرتی آفات سے غریب اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیر کی جانے والی آبادیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ لنڈی کوتل کے حالیہ سیلاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کا گھر کچا ہے اور سیلاب میں بہہ جائے تو اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے، لیکن جو تعمیرات دریاؤں اور برساتی نالوں کی حدود میں ہوئی ہیں ان کو نقصان پہنچنے کے یہ لوگ خود اور حکومت دونوں ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دریاؤں اور نالیوں کے آس پاس گھر اور مارکیٹس بنانے والوں کو بھی چاہئے کہ زمین کی سطح سے کم سے کم 5 فٹ اوپر تعمیرات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیرات میں ضرور انجینئرز کی مدد لی جائے کیونکہ ایسی تعمیرات آفات کا مقابلہ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔
ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ماہر کا کہنا ہے کہ نا تو عوام ان باتوں کا خیال رکھتی ہے اور نہ ہی حکومت اس ضمن میں کوئی واضح پالیسیاں اپناتی ہے۔ اگر کوئی پالیسی ہو بھی تو حکومت نفاذ میں ناکام رہتی ہے۔
دونوں پاؤں سے معذور صفت خان بھی انہی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شکار ہوا ہے۔ صفت خان چل پھر نہیں سکتے اور ان کے مالی مسائل کے حل کے لئے یار دوستوں نے کچھ عرصہ پہلے ان کے لئے چندہ کر کے بجلی کے سامان کی دوکان کھول لی تھی جس سے ان کی روزی روٹی چل نکلی تھی۔ تاہم 15 جولائی کے سیلاب نے انہیں ایک بار پھر مالی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔
صفت خان کی دوکان سلطان خیل میں سڑک کنارے اس مقام پر ہے جہاں پاک افغان شاہراہ کی بائیں جانب بہنے والا خیبر خوڑ (نالہ) سڑک عبور کر کے دائیں جانب بہنے لگتا ہے۔ صفت خان کہتے ہیں کہ اگر اس مقام پر پل بنا ہوتا اور پانی سڑک کے اوپر گزرنے کی بجائے پل میں گزرتا یا ان کی دوکان تہہ خانے کی بجائے اوپر کے پورشن پر ہوتی تو یقیناً بچ جاتی۔
صفت خان کہتے ہیں کہ اوپر کے پورشن کا کرایہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کی مالی استعداد اتنی نہیں کہ وہ ادا کر سکیں۔
لنڈی کوتل میں چیک ڈیمز کی تعمیر ممکن ہے؟
ویسے تو لنڈی کوتل سمیت خیبر ضلع کے مختلف علاقوں میں سیلاب آتے رہتے ہیں لیکن لنڈی کوتل میں حالیہ سیلاب 2007 کے بعد دوسرا بڑا سیلاب تصور کیا جاتا ہے۔ معروف آفریدی کا دعویٰ ہے کہ 2007 میں خیبر خوڑ (نالہ) میں تقریباً 15 فٹ تک سیلابی ریلہ تھا جبکہ حالیہ ریلہ 8 فٹ تک تھا۔
لنڈی کوتل کے عوام اور بالخصوص سماجی کارکنان اور صحافی حضرات پچھلے چند عرصے سے ایک مہم بھی چلا رہے ہیں کہ وہاں برساتی نالوں پر جگہ جگہ چیک ڈیمز تعمیر کئے جائیں۔ اس مہم کی بڑی وجہ علاقہ میں زیرزمین پانی کی سطح کا روز بروز نیچے جانا تھا تاہم اب سیلاب کے بعد اس مہم نے مزید زور پکڑا ہے کیونکہ ان کے خیال میں چیک ڈیمز سے نہ صرف زیرزمین پانی کی سطح بہتر ہو جائے گی بلکہ اس طرح کے سیلابوں کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے گی۔
معروف آفریدی بھی ان آراء سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لنڈی کوتل کا تقریباً 80 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جس میں بے شمار برساتی نالے ہیں۔ ان پہاڑوں میں مختلف جگہوں پر باآسانی سات سے آٹھ فٹ تک کی گہرائی والے چیک ڈیمز تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ ان ڈیمز سے نہ صرف سیلابی ریلوں کا زور ٹوٹے گا بلکہ یہ پانی دریاؤں میں بہنے کی بجائے ہم استعمال میں بھی لا سکیں گے۔ ان چیک ڈیمز سے یقیناً علاقے میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو گا اور زیرزمین پانی بہت جلد واپس پرانی سطح پر آ جائے گا۔