باجوڑ میں تجارتی راہداریاں بند ہونے کی وجہ سے کاروباری افراد کو معاشی مشکلات کا سامنا
محمد بلال یاسر
ضلع باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداریاں بند ہونے کی وجہ سے عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ شیخ جہانزادہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہیں اور باجوڑ سے تجارتی راہداریوں کے کھلنے کے لیے منعقدہ جرگہ کے ممبر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتک اس سلسلے میں 6 سے زائد جرگے منعقد ہوئے ہیں جس میں دونوں اطراف سے قومی مشران اور سرکاری حکام نے شرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور یہ تجارتی راہداریاں عوام کیلئے کھول دی جائیں گی۔
انہوں نے پیش رفت کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شاہد اللہ خان نے دورہ باجوڑ کے موقع پر ناواپاس بارڈر کا وزٹ کیا اور حالات پر انہیں بریفننگ دی گئی جس پر انہوں اطمینان کا اظہار کیا اور ہمیں یقین دلایا کہ بہت جلد یہ بارڈر کھول دیئے جائیں گے۔
تجارت اور رزق کا حصول انسان کی مجبوری ہے اس لئے ضم اضلاع کے عوام بالعموم اور ضلع باجوڑ کے عوام بالخصوص جہاں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع فراہم کیے جانے کی امید رکھے ہوئے ہیں وہیں وہ افغانستان کے ساتھ واقع تجارتی راہداریوں کی بحالی کا بھی شدت سے مطالبہ کر رہے ہیں۔
صوبے کے نئے اضلاع میں جہاں ماضی کی پالیسیوں کے سبب بیشمار سماجی مسائل نے جنم لیا ہے۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ ان علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں خطرناک اضافہ ہے۔ ان علاقوں میں بدامنی کی مخدوش تر ہوتی صورتحال میں انضمام کے عمل پر سوالات بھی اٹھائے جانے لگے ہیں اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ قومی دھارے میں شمولیت کے باوجود انہیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ضم شدہ ان نئے اضلاع میں زمانوں سے یہاں کے باسی افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور یہاں کے باسیوں کا افغانستان کے ساتھ تجارت ہی رزق کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا تھا لیکن اب راہداریاں بند ہونے کی وجہ سے انکو مشکلات کا سامنا ہے۔
ضلع باجوڑ کو افغانستان کے صوبے کنڑ سے ملانے والی ناواپاس 2008 سے بند ہے جس کی وجہ سے سرحد کے آر پار تجارتی سرگرمیاں اور لوگوں کے درمیان روابط شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تجارتی شراکت داری ٹریڈ پارٹنر شپ کی ایک لمبی تاریخ ہے، افغانستان پاکستانی بندرگاہ کے ذریعے بیرون ممالک کے ساتھ تجارت کرتا ہے تو پاکستان افغانستان سے ہوکر ہی وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
باجوڑ میں واقع غاخی پاس ، ناواپاس ، کگہ پاس اور لیٹئ پاس پاک افغان بارڈر کی متعدد تجارتی راہداریوں میں سے قابل ذکر ہے جو جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک تجارتی راہداری کے طور پر بروئے کار لائی جاتی ہیں۔
یہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے بالکل متصل ہے۔ وار آن ٹیرر کے دوران افغانستان کی طرف سے عسکریت پسندوں کی دخل انددازی کے باعث ، غاخی پاس ، ناواپاس ، لیٹئ پاس اور کگہ پاس بھی باجوڑ کے دیگر راہداریوں کی طرح بند کردی گئی ہیں۔
تاجر چاہتے ہیں کہ پرانے سرحدی راستوں کو دوبارہ کھولا جائے تاکہ وہ روزی کمانے کے لیے واپس افغانستان جا سکیں اور وہاں کے تاجر یہاں آسکیں۔
جہاں کبھی ہوٹل، ریستوراں، اور چھوٹے کاروبار ہوا کرتے تھے لوگوں کی ہجوم کی جگہ اب ایک خوفناک خاموشی نے لے لی ہے۔ غاخی پاس پر پاک افغان سرحد پر ایک سابق دکاندار حاجی فقیر گل کی خواہش ہے کہ پرانے رونق والے دن واپس آجائیں۔ فقیر گل کو وہ دن یاد ہے جب یہاں بہت سارے لوگ کام کرتے تھے لیکن پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی اور 2006 میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سے خطے کی سرحدیں بند کر دی گئیں۔
وہ علاقے کے دیگر چھوٹے کاروباریوں کی طرح اپنا ہوٹل بند کرنے اور نئے سرے سے روزگار کی جگہ تلاش کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس کے بعد سے ہماری روزی روٹی کو بہت نقصان پہنچا۔ فقیر گل اور ان جیسے بہت سارے تاجر روزگار کی تلاش میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔
باجوڑ اور مہمند اضلاع افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ کے لیے ترجیحی راستے ہیں اور انہیں راستوں پر بہت سے کاروبار قائم تھے۔ اس معاملے سے باخبر افراد کے مطابق جب سرحدیں بند ہوئیں تو 20,000 سے زیادہ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکام سرحدوں کی بندش پر نظر ثانی کریں تاکہ لوگ روزی کما سکیں۔
سرحد کے دوسری طرف کے تاجروں کو بھی ایسی ہی امیدیں ہیں۔ افغانستان سے سامان پہنچانے والے ایک تاجر حاجی دلبار ماموند نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستے کی بندش سے سینکڑوں ڈرائیورز، ہیلپرز اور مزدور بے روزگار ہو گئے اور سرحدی علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہو گئی۔ اسی طرح صوبہ کنڑ میں تاجر یونین کے صدر حاجی نوروز نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کاروبار دوبارہ شروع کرنے کی متعدد بار کوششیں کی گئی ہیں لیکن نہ تو ہماری حکومت اور نہ ہی ان کی حکومت اس کاروبار کو جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
باجوڑ میں حالیہ کچھ عرصے سے مقامی مشران ، تاجر برادری بارڈروں کے دوبارہ کھولے جانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی جرگوں کے بعد ضلعی انتظامیہ کے زیر نگرانی ناواپاس میں افغان حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔