سیاست

دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہمیں منظور نہیں، تاجر برادری

رفاقت اللہ رزڑوال

وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے بجلی کی بچت کے لیے ملک بھر میں دکانیں اور کمرشل کاروباری مراکز رات 8 بجے سے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاہم تاجر برادری کے نمائندہ تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سے دوکانداروں کی متاثرہ کاروبار مزید خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ بجلی کی بچت میں تحقیق کاروں نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیکر مزید اقدامات اُٹھانے پر زور دیا ہے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف کے زیر صدارت منگل کے روز اسلام آباد میں قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس ہوا جس میں صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

این ای سی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بجلی کی بچت پر میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رات 8 بجے بجلی بند کرنے، پرانے بلب کو ایل ای ڈی لائٹس میں تبدیل کرنے اور گھروں میں لگنے والی گیزرز کی صلاحیت بہتر بنانے سے ملک کو سالانہ 1 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے مزید بتایا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے تیل اور ایندھن پر بجلی پیدا کرنے سے گریز کرے اگر ان وسائل کے ذریعے بجلی کی پیداوار جاری رہی تو ہماری معیشت ہمیشہ کے لیے خطرات میں گھری رہی گی۔ وفاقی وزیر نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ بجلی کی مزید بچت کے لیے حکومت گرین انرجی کو فروغ دے رہی ہے جس میں سولر انرجی، ہائیڈل انرجی اور ونڈ انرجی کے منصوبے شامل ہوں گے جبکہ کوئی بھی ایسا منصوبہ قائم نہیں کیا جائے جس میں درآمد کردہ فیول کے ذریعے بجلی پیدا ہوگی۔

واضح رہے کہ دسمبر 2022 میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ بجلی کی بچت کی خاطر شادی ہالز کی اوقات کار رات 10 بجے جبکہ ہوٹلز اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند ہوں گی مگر وہ فیصلہ بھی عملی نہ ہوسکا۔

وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو خیبر پختوںخوا کے تاجر برادری نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو ممبر مجیب الرحمان نے ٹی این این کو بتایا کہ گرمی کی شدت کے باعث بازاروں میں گاہک سودا سلف خریدنے نہیں نکلتے جبکہ بیشتر لوگ رات شام کے وقت خریداری کرتے ہیں تو اس لیے انہیں یہ فیصلہ منظور نہیں ہے۔

مجیب الرحمان مزید کہتے ہیں کہ پورے ملک کی نسبت تاجر سب سے زیادہ مہنگی بجلی خریدتے ہیں، اگر یہ اقدام اُٹھایا گیا تو معیشت کو مزید سخت نقصان پہنچے گا، حکومت کو چاہئے کہ تاجروں کے حوالے سے فیصلوں میں تاجروں کو ساتھ بٹھائیں اور مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بجلی کی بچت کے مخالفت نہیں کرتے لیکن اگر حکومت مفت کی بجلی، سرکاری اور حکومتی دفاتر میں ائرکنڈیشنز بند کردیں تو بجلی کی وافر مقدار میں بچت ہوسکتی ہے۔

خیبر پختونخوا کے تاجر نمائندے نے بتایا کہ ایسی صورتحال میں حکومت کا یہ فیصلہ کبھی بھی قبول نہیں کیا جاسکتا، جہاں پر ایک طرف تاجروں پر بڑے بڑے ٹیکس لگائے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک خاص وقت تک کاروبار محدود کیا جاتا ہے، اگر حکومت زبردستی مارکیٹیں بند کریں گی تو احتجاج کریں گے۔

بجلی کی پیداواری صلاحیتیں بڑھانے پر محقیقین پانی سے بجلی کی جنریشن پر زور دیتے ہیں جس کی ماحولیات پر منفی اثرات کی کمی اور لاگت نمایاں خوبیاں سمجھتے ہیں۔

خیبر پختوںخوا میں سابق رُکن صوبائی اسمبلی اور بجلی کے پیداوار پر تحقیق کار احمد کریم کُنڈی نے بتایا کہ کسی حد تک بجلی کی بچت کے لیے اس قسم کے فیصلے اچھے ہیں مگر یہ بہت کم سطح کے اقدامات ہیں۔

احمد کریم بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں بجلی کی استعمال تقریباً 130 ارب یونٹس ہیں جس میں سب سے سستی بجلی ہائیڈل یا نیوکلئیر کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، پانی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں خیبر پختونخوا سرفہرست ہے جس کا ماحول پر بھی منفی اثرات نہیں پڑتا۔

کنڈی کا کہنا ہے کہ میری نظر میں اصل پالیسی یہ ہے کہ پانی کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی جائے کیونکہ ہائیڈل جنریشن کی فی یونٹ قیمت ایک روپے یا ڈیڑھ روپے ہے جبکہ تھرمل جنریشن کی فی یونٹ قیمت 40 روپے تک ہے، تو جب تک حکومت ہائیڈل جنریشن پر توجہ نہیں دیتی تو بجلی کی بچت اس قسم کے کاسمیٹک فیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔

خیال ہے کہ گزشتہ روز این ای سی اجلاس میں وزیراعظم کو سرکاری عمارات پر سولر نظام کے ذریعے بجلی کی حصول کے منصوبوں سے بھی آگاہ کیا گیا جس پر وزیراعظم نے ہدایات کی سال 2023-24 کے بجٹ میں مزید بجلی کی پیداوار اور بچت کے منصوبوں کو شامل کیا جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button