بلاگزلائف سٹائل

آخر ہم کھا کیا رہے ہیں؟

نازیہ

کھانا زندہ رہنے کے لیے کھایا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار یہی کھانا ہماری صحت کو بیمار کر دیتا ہے۔ ہر سال سات 7 جون کو محفوظ خوراک کے فروغ کا دن منایا جاتا ہے تو پھر میں نے سوچا کیوں نا آج محفوظ خوراک کے بارے میں کچھ لکھ ڈالوں۔

 کیا اپ کو پتہ ہے کہ آخر ہم کھا کیا رہے ہیں؟

ابھی یہ دو دن پہلے ہی کی بات ہے کہ میری کچھ دوستیں ایک بہت ہی مشہور ریسٹورنٹ کھانا کھانے کے لیے گئی۔ میری دوستوں نے ان کھانوں کی تصاویر مجھے بھیجی کھانے کی تصاویر کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا شاید یہ کچھ زیادہ ہی مزے دار ہونگے لیکن رات کو پھر میرے دوستوں کا میسج آیا کہ ہم سب کو فوڈ پوائزننگ ہوگئی ہے اور وہ ایک بہت ہی مشہور نامی گرامی ریسٹورنٹ تھا جس کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتی۔ یہ ساری بیماریاں تب شروع ہوتی ہے جب آپ اپنے گھر کے باورچی خانے سے باہر کھانا کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے آئے روز جیسے ہی میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کھولتی ہوں تو اس میں روز کسی نہ کسی مشہور ریسٹورنٹ پر چھاپہ مارا گیا ہوتا ہے اور اس میں یہی ایک بات کی جا رہی ہوتی ہے کہ صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے اس کو بند کیا گیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ ایک روایت بن گیا ہے کہ ہم لوگ آئے روز ریسٹورنٹ سے کھانوں کو ارڈر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو دفاتر میں کام کرتے ہیں اور ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے تو وہ زیادہ تر ریسٹورنٹس سے کھانوں کو آرڈر کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ اسانی سے موٹاپے اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ فاسٹ فوڈ ایک فیشن بن چکا ہے۔ تقریبا آدھے سے زیادہ ریسٹورنٹس میں کھلے آسمان کے تلے باربی کیو کا گوشت ہوا میں جھول رہا ہوتا ہے جو دھول، مٹی اور دھویں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے۔ یہی باسی، ملاوٹ زدہ اور نیم پختہ خوراک ہی ہمیں بیماریوں کی طرف دکھیلتا ہے۔

زیادہ تر ایسے ریسٹورنٹس ہیں جہاں پر کھانا پکانے کے لئے لوگ ہاتھ دھوتے ہی نہیں ہے بہت کم ایسے ریسٹورنٹس ہونگے جو دستانے اور کوکنگ کیپ پہنتے ہیں۔

ہم بازار سے جو گوشت اور تیار شدہ مصالحے خریدتے ہیں یا ریسٹورنٹس میں جا کے جو کباب یا قیمہ تناول فرماتے ہیں ہم کیا جانے کہ اس کباب میں کتنا گوشت، کتنی آنتیں اور دیگر کتنی آلائشیں ڈالی گئی ہے اور یہ چکن جو بڑی ہی اچھی خوشبو چھوڑتا ہوا باربی کیو ہو رہا ہوتا ہے ایا یہ باربی کیو ہونے سے پہلے صحیح طرح سے ذبح شدہ تھا یا پھر اپنے اپ ہی مر چکا تھا؟

اس حوالے سے غذائی ماہر کا ایک انٹرویو دیکھ رہی تھی جس میں اس نے ایک گہری بات کہی  کہ "یہ جو میدہ شدہ سرخ مرچ ہم کھاتے ہیں زیادہ تر اس میں اینٹوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے معدے کی بیماریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اج کل یہ ڈسپوزیبل برتن کا رواج بہت عام ہے، جس سے کینسر ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔”

لیکن نہیں ہمیں تو صرف ریسٹورنٹ کا نام اور خوراک کی شکل ہی پیاری ہوتی ہے نا کہ اپنی صحت۔

پتہ نہیں ہم میں سے کتنے لوگ دن میں کتنی بار کھانا پکاتے اور کھاتے وقت ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھل جس کے اوپر مکھیاں بڑبرا رہی ہوتی ہے کو دھو کر کھاتے بھی ہے یا نہیں۔

ہم تو اس کو خوراک سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں کیا پتہ کہ ہم اصل میں خوراک نہیں گویا کہ زہر نگل رہے ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک راستے سے گزر رہی تھی تو راستے میں ایک ریسٹورنٹ سے گزر ہوا۔ تو کیا ہو رہا تھا وہاں پر کہ وہ لوگ جیسے چاول کھاتے تو وہ ان خالی پلیٹ کو ایک بالٹی جو کہ میلے پانی سے بھرا ہوا تھا میں ڈالتے اور ایک میلے کپڑے سے اس کو صاف کرتے اور دوبارہ سے اس پلیٹ میں اور لوگوں کو چاول ڈال کر دیتے۔   سے میں نے توبہ کر لیا کہ ائندہ سے کبھی بھی باہر کے چاول نا کھاؤں۔

اگر سچی بات کہوں تو جب زندگی سادہ تھی تو مسائل بھی کم تھے۔ جیسے جیسے جدت آرہی ہے تو خوراک میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں جو کہ کئی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے تو انہیں پیچیدگیوں کی وجہ سے پته نہیں چلتا کہ خوراک کب اور کہاں زہر میں بدل رہا ہے۔

خوفناک بات تو یہ ہے کہ بعض خوراکی اشیأ جس کی مدت گزر چکی ہوتی ہیں اور بعض کی مدت گزر جانے کی تاریخ کو جان بوجھ کے ہٹا دیا جاتا ہے کو بیچا جا رہا ہوتا ہے۔ جو لوگوں کو موت کے کنویں کی طرف دھکیل رہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں جب ان خوراکی اشیاء کی مدت میں چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو ان کو شیلف سے ہٹا دیا جاتا ہے اور ان کی قیمت اتنی کم کر دی جاتی ہے کہ یہ جلدی سے بک جائیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا۔

حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ خریدار تک صاف و معیاری خوراک دینے کے لیے بیچنے والوں کو سختی سے پابند کریں کہ ان کا کھانا صاف اور معیار پر پورا اترنا چاہیئے۔ ریسٹورانٹس و دکانوں، امپورٹر ایکسپورٹرز کے گوداموں میں گلی سڑی اشیا بیچنے والوں پر چھاپے اور جرمانے لگانے چاہیے ورنہ اسی طرح سے ہماری صحت کے ساتھ کھیلنے کا یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے گا۔

ہمیں سادہ اور گھر میں پکے ہوئے خوراک کو ترجیح دینی چاہیئے۔ خیر ہے اگر کبھی کبھار دوستوں کی خوشی میں شامل ہو کر باہر ریسٹورانٹس کا کھانا کھالے لیکن روز کا معمول نہیں بنانا چاہیے کیونکہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔

 

نازیہ بلاگر ہے جو مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button