سی ایس ایس انٹرویو ٹاپ کرنے نوجوان والا دہشت گرد کیسے بنا؟
رعناز
کچھ دن پہلے میں نے ایک لڑکے کی کہانی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوتی دیکھی۔ آئیے آپ کو بھی یہ کہانی سناتی ہوں ۔شاید میری طرح آپ کی بھی آنکھیں کھل جائیں کہ ہمارے ملک میں آخر یہ ہو کیا ہو رہا ہے۔ اس کہانی کو بیان کرنے والا بتا رہا تھا کہ آج سے پورے چار سال پہلے میں سی ایس ایس کا انٹرویو لے رہا تھا۔ اس انٹرویو کے لئے ایک نوجوان لڑکا آیا۔ اس کی قابلیت کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کیونکہ اس نے چالیس سوالوں کے بالکل ٹھیک جواب دیے۔
کہانی بیان کرنے والے نے بتایا کہ میں نے اور میرے ساتھ دو اور ساتھیوں نے جومیرے ساتھ انٹرویو لینے کے لیے بیٹھے تھے، یہ فیصلہ کیا کہ اس لڑکے کا نام لسٹ کے ٹاپ پر ہوگا۔ انٹرویو دینے کے بعد جب وہ لڑکا باہر جا رہا تھا تو اس نے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ آپ لوگ میری سلیکشن نہیں کریں گے کیونکہ وہی لوگ سلیکٹ ہوں گے جنہوں نے سفارش کی ہوگی اور ان کی لسٹ پہلے سے ہی منسٹر صاحب کے پاس آئی ہوگی۔ وہ نوجوان لڑکا بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا کیونکہ جیسے ہی ہم نے لسٹ منسٹر صاحب کو پکڑائی ،تو انہوں نے وہ اسی ٹائم پھاڑ دی کہ میں ادھر لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنے نہیں بیٹھا۔
اس دن کے ٹھیک چار سال بعد اخبار میں آیا کہ دہشتگردوں اور فوج کا مقابلہ ہوا ہے اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ کہانی بیان کرنے والے نے بتایا کہ جیسے ہی میں نے ان دہشتگردوں کی تصویر دیکھی تو ان میں ایک وہی لڑکا تھا جو سی ایس ایس کا انٹرویو کو پاس کرنے والوں میں سرفہرست تھا۔
افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں قابل لوگوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے اور وہ بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں صرف گوشت پوست کے انسان رہ گئے ہیں، انسانیت مر گئی ہے ؟ہم کتنے بے حس ہو گئے ہیں ۔ہم تو مسلمان ہیں تو پھر ایک مسلمان میں اتنی بے حسی کیوں ؟ایک قابل انسان جو کہ انٹرویو کو پاس بھی کرے اور پھر بھی اسے ر یجیکٹ کیا جائے ۔کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے پاس رشوت میں دینے کے لیے بھاری رقم نہیں ہوتی ۔کیا وہ ملک ترقی کرسکتا ہے جس کا نوجوان طبقہ بے روزگار ہو ؟
بے روزگاری ایک اذیت ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ پورے سماج کو متاثر کرتا ہے۔ تو اتر کے ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری مختلف فسادات کو جنم دے رہی ہے۔ نوجوان نسل دہشتگرد، چور ،ڈاکو اور قاتل بننے پر مجبور ہے ۔نوجوان ہاتھوں میں بڑی اور مہنگی ڈگریاں لے کر دفتروں کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ انٹرویوز دے کر اور ریجیکٹ ہونے کے بعد وہ تھک چکے ہوتے ہیں اور نوکری تو اسی بندے کو ملنی ہے جس نے یا تو سفارش کی ہوئی ہوتی ہے یا رشوت دی ہوتی ہے ۔یہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری نوجوان نسل کو ایک دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ اعلی تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوان حصول روزگار کے لئے محنت کی منڈی میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن نہ سرکاری اور نہ پرائیویٹ اداروں میں اتنا انصاف ہے کہ ان کو قابلیت کی بنیاد پر نوکریاں دیں۔دنیا بھر میں نوجوان نسل کوقوم کا قیمتی کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے اور ملک و قوم کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے تو پھر ہمارا نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان اور دربدر کیوں ہے؟
ہمیں ایک دفعہ ان بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے والدین کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جنہوں نے اپنی جمع پونجی اپنے بچوں کی تعلیم پر اس امید پر لگائی ہوتی ہے کہ وہ ایک دن ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے ۔لیکن افسوس ! حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ؛ان میں سے بعض نشے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی کو تباہ کر لیتے ہیں ۔ اس بے روزگاری کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل میں تعلیم کا شوق ختم ہوگیا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
غرض ہمیں ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو ختم کرنا ہوگا۔ ا اس کے لئے حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں روزگار اور نوکریاں فراہم کرے ۔پرائیویٹ ہو یا سرکاری ادارہ ان نوجوانوں کو قابلیت کی بنیاد پر نوکری دینی چاہیے نہ کہ سفارش اور رشوت کی بنیاد پر تاکہ ملک سے بے روزگاری ختم ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔