سندس بہروز
9 مئی کو یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ اچانک خبر آئی خان صاحب گرفتار ہوگئے ہیں، پہلے تو یقین نہ آیا پھر انٹرنیٹ کی مہربانی سے خبر کی تصدیق ہوئی، اب اس کشمکش میں تھی کہ آیا کلاس ہوگی کہ نہیں، جاؤں کہ نہ جاؤں خیر یونیورسٹی جانے کا ارادہ کرلیا، راستے میں ہی کلاس کینسل ہونے کی خبر مل گئی مگر ساتھ ہی فون کالز کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ظاہر سی بات ہے مرکز میں پڑھتی ہوں ہاسٹل رہتی ہوں، گھر والوں کو فکر تو ہوگی، ان کو آنے والے وقت کا اندازہ تھا، اس لئے پریشان تھے۔ گھر والوں کی طرف سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت سن کر جب فون کالز سے فارغ ہوئی تو حالات جاننے کے لیے انٹرنیٹ کا رخ کیا مگر یہ کیا انٹرنیٹ کی سہولت تو معطل کر دی گئی تھی۔
ملک میں جگہ جگہ دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ لوگ احتجاج کے لیے گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ ملک میں عجیب سا سماں تھا، خان صاحب کے مداحوں کا علم تو مجھے پہلے ہی سے تھا۔ اپنے لیڈر کے گرفتار ہونے پر اتنے حواس باختہ ہوئے کہ انہوں نے اسلحہ اٹھا لیا اور تھانوں اور چوکیوں پر فائرنگ کرنے لگے۔ جہاں کسی کی گاڑی کھڑی دیکھی اس کے شیشے توڑ ڈالے، گاڑیوں کو جلا ڈالا۔ سرکاری افسروں کے گھروں پر دھاوا بول دیا، وہاں پر ہر چیز جلا دی موٹروے ٹول پلازے جلا دیے حال یہ کہ ملک میں ہر طرف آگ ہی آگ تھی پورا ملک لہو لہان تھا لیکن ان لوگوں کو کوئی فکر ہی نہ تھی۔
ویسے یہ لوگ میری سمجھ سے باہر ہیں۔ ان کو خان صاحب سے محبت اس لئے ہے کہ ان کے مطابق وہ اس ملک کے خیرخواہ ہیں، اب عقل سلیم تو یہ کہتی ہے کہ یہ لوگ بھی ملک ہے خیرخواہ ہی ہوئے مگر یہاں تو جی عجیب سی محب الوطنی کا مظاہرہ ہورہا تھا حکومتی اثاثوں کو نقصان پہنچانا تو ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، وہ ایک مشہور مثال ہے کہ ہمارا بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہے مگر اپنے ملک کی مناسبت سے مجھے لگتا ہے کہ ہمارا تو خلیہ خلیہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے، ان لوگوں کی محب الوطنی کے میں صدقے جاؤں کہ اب سرکار کو اس نقصان کی بھرپائی کیلئے پیسے درکار ہوں گے اور پھر سے قرض لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما یہ کہتے کہتے تھک گئے کہ ہم ایک پرامن احتجاج کریں گے مگر جی ہماری عوام تو شاید اس لفظ سے ناآشنا ہے۔
آخر میں ہوا کیا، خان صاحب رہا ہو گئے ،لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے مگر جو سرکاری گاڑیاں انہوں نے جلائی کیا وہ پھر سے سرکار ان افسروں کو مہیا کریں گی، جن افسروں کے گھر جلائے ہوئے تھے اور ان کے فریزر سے سٹرابری نکال کر عوام نے کھائی تھی اس کی برپائی سرکار ان کو اعلی بنگلہ دیگر کرے گی اور اس دفعہ ان کے فریزر میں سٹرابری کے ساتھ پائن ایپل بھی رکھے ہوئے ہوں گے۔ یہ ٹول پلازے بھی سرکار ہی بنائیں گے اور سرکاریہ سب کہاں سے کرے گی، ظاہر سی بات ہے سرکاری خزانے سے اور سرکاری خزانے میں یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ عوام کے ٹیکس اور دوسرے ممالک سے لئے ہوئے قرض سے۔ اس سب کا بوجھ کس پر آئے گا ، عوام پر یعنی کہ عوام نے خود کو خود ہی نقصان پہنچایا، اسی لئے کہتے ہیں کہ غصہ حرام ہے۔
یہ احتجاج پرامن طریقے سے بھی ہوسکتا تھا۔ متعلقہ اداروں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے ہر جگہ آگ لگانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی جگہ جگہ سڑک کے بلاک کرنے کی مگر شاید اس عوام کی ملک سے محبت بھی آج کل کے نوجوانوں کی محبت کی طرح صرف ضد ہے جس میں تعمیر سے زیادہ تخریب کاری ہے۔
سندس بہروز ایم فل انگلش لٹریچر کی طالبہ ہے اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہے۔