پشاور: پرتشدد واقعات میں ملوث مظاہرین کی فہرست جاری، لسٹ میں افغان باشندے بھی شامل
آفتاب مہمند
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ میں گرفتاری کے بعد ملک بھر کی طرح پشاور میں بھی پرتشدد واقعات کے بعد پرتشدد مظاہرین کی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔
جاری کردہ فہرست کے مطابق پرتشدد مظاہرین میں کئی پارٹی رہنماء جبار باغی، طلال آفریدی، عمران سلارزئی و دیگر کے نام بھی شامل ہیں۔
پشاور میں ریڈیو پاکستان، جی ٹی روڈ، شیر شاہ سوری پل کے قریب توڑ پھوڑ، رنگ روڈ، قلعہ بالا حصار، ہشتنگری، چوک موٹروے ٹول پلازہ میں توڑ پھوڑ کرنے والے مشتعل کارکنان کے نام بھی شامل ہیں۔ اسی طرح باچا خان چوک، فردوس چوک، چمکنی موڑ، یونیورسٹی روڈ پر مختلف سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بھی مذکورہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
فہرست میں مجموعی طور پر 296 افراد کے نام، ولدیت اور مکمل تفصیلات درج ہیں۔ جن میں پشاور میں مقیم کئی افغان باشندے بھی شامل ہیں۔
پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کا تعلق پشاور کے مختلف علاقوں فقیر آباد، گلبہار، سربند، بڈھ بیر، پشتخرہ، چمکنی، تہکال، ٹاون ودیگر علاقوں سے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے محکمہ پولیس نے مذکورہ فہرست کو مرتب کرکے صوبائی محکمہ داخلہ کو بجھوا دیا ہے جبکہ فہرست خیبر پختونخوا کی دارالحکومت پشاور کی حد تک محدود ہے۔
گرفتار ہونے والے ملزمان میں بعض افغان نوجوانوں کی پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے ویڈیو بیانات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں افغان باشندوں نے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرکے تحریک انصاف کے پشاور میں بعض سابق ممبران صوبائی اسمبلی کے نام لیکر کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کو مذکورہ سابق ممبران صوبائی اسمبلی نے بلا کر پیسے دئیے اور بتایا گیا تھا کہ جاکر فردوس یا دیگر مقامات پر پرتشدد واقعات میں حصہ لیا جائے۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کا پارٹی موقف تاحال سامنے نہیں آیا البتہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی صفی اللہ گل محسود کہتے ہیں کہ ایسے حالات یا پرتشدد واقعات میں افغان باشندے بھی ملوث پائے جاتے ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان یا کم عمر ہوتے ہیں۔
ان کے بقول تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ آیا واقعی انہوں نے پیسے لیکر ان واقعات میں حصہ لیا کیونکہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس کے سامنے ملزمان پیسوں کے عوض ایسے کئی واردات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہیں تاہم عدالت میں پیش کئے جانے کے بعد وہ جرم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اس لیے پشاور کے مذکورہ پر تشدد واقعات میں پیسوں کے عوض ملوث ہونے کا اصل پتہ ملزمان کی عدالت میں پیشی کے بعد چل جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ ابھی تو دیگر ملزمان کی طرح افغان باشندوں پر بھی کیسز چلانے ہیں، کیسز چل جانے کے بعد سزاوں کا بھی پتہ چل جائے گا جبکہ ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی افغان باشندوں کو 14 فارن ایکٹ کے تحت افغانستان ڈی پورٹ کرکے وہاں کی حکومت کے حوالے کیا جاتا رہا تاہم جب تک ان کو عدالتوں سے سزائیں نہیں ہو جاتی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔