بلاگزجرائم

جنگ سے خواتین ہی کیوں زیادہ متاثر ہوتی ہیں؟

نازیہ سلارزئی

اپنا تو ارادہ قبائلی اضلاع میں خواتین کے لئے یونیورسٹی کی عدم موجودگی پر ایک بلاگ لکھنے کا تھا لیکن جیسے ہی اپنے مینٹور سے آئیڈیا ڈسکس کیا تو وہ آگے سے ہنس دیئے۔ کہا "محترمہ آپ یونیورسٹی کی بات کر رہی ہیں وہ بھی ان خواتین کے لئے جن کے سروں پر ایک بار پھر جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ انہیں تعلیم کی نہیں اس بات کا غم کھائے جا رہا ہے کہ اگر پھر سے فوجی آپریشن ہوا تو اس کی وجہ سے وہ اپنے سروں پر سامان، بوریا بستر اٹھائے کہاں کہاں کی خاک چھانتی پھریں گی؟”

میں نے سوچا بات تو درست ہے کیونکہ جب امن نہیں ہو گا، جان ہی کو خطرہ ہو گا تو خواتین خاک یونیورسٹی جا سکیں گی۔

دراصل انہی دنوں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک جامع آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ آپریشن کا نام سنتے ہی بندہ ایک دم سے کانپ جاتا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو اس سے قبل اس کرب سے گزر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یوٹیلٹی بلز آ سکتے ہیں تو غریب کے گھر آٹا کیوں نہیں آ سکتا؟

جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو میں تو اس کی کھل کر مخالفت کروں گی کیونکہ ماضی میں اس طرح کے اقدامات (آپریشن) کے نتائج بڑے ہی دردناک اور بھیانک نکلے تھے۔ ویسے بھی اس امر پر تقریباً سبھی کا اتفاق ہے کہ طاقت کا استعمال یا فوجی آپریشن مسٔلے کا حل نہیں بلکہ الٹا خود کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے۔

اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنگ سے خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور بچے بھی! آپ غور کریں بچوں کی تکلیف کس کی تکلیف ہوئی؟ جنگ میں شوہر مرے، والد، بھائی یا پھر بیٹا، عورت ہی کا کلیجہ پھٹتا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ہو یا تنازعہ اس کا بنیادی شکار خواتین ہوتی ہیں مگر بدنصیبی کی انتہا دیکھیے کہ امن مذاکرات ہوں یا امن سے متعلق کوئی اور منصوبہ بندی، اس سلسلے میں یہی خواتین ہی ہیں جن کو ہمیشہ نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

یہاں اپنے علاقے کی ایک خاتون کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی۔ 2008 میں جب قبائلی اضلاع میں بدامنی کا دور دورہ تھا، ان کا ایک بیٹا باہر میدان میں کرکٹ کھیل رہا تھا کہ اچانک بم پھٹنے سے وہ اپنی ایک ٹانگ کھو بیٹھا۔ اج بھی وہ اپنی ماں کے سہارے زندگی جی رہا ہے۔ اس خاتون کے بقول ” میں کب تک یہ غم برداشت کرتی رہوں گی۔ اگر کل کو میں نہ رہوں تو میرے بیٹے کی خدمت کون کرے گا؟”

یقین مانیے اس ماں کے اس سوال کا سوچ کر آج بھی میرا دل خون کے آنسو رو دیتا ہے۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات بے شمار ہیں۔ آپ کو قبائلی اضلاع میں، بلوچستان میں، خیبر پختونخوا میں، افغانستان، کشمیر، فلسطین، شام اور یمن میں قدم قدم پر ایسی مائیں ملیں گی جن کے لبوں پر ایسے ہی سوال مچل رہے ہیں۔

یہاں پر میرا ایک سوال بنتا ہے کہ آخر ان خواتین کا قصور کیا بے جو اتنا درد سہتی ہیں؟ حالانکہ انٹرنیشنل ہومینیٹیرین لاء کے حوالے سے ایک ٹریننگ میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ جنگ میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو امان حاصل ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے جس ملک میں، میں اور آپ زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں انسانوں کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔

کیا کسی نے اس بارے سوچا ہے کہ اگر ایک بار پھر سے خدانخوستہ اسی طرز کا کوئی آپریشن شروع ہوتا ہے تو اپنے گھروں اور علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والی خواتین ایک بار پھر سے ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں دھکے کھانے پر مجبور ہو جائیں گی، باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنا پڑے گی، بہت ساری تو بیوہ ہو جائیں گی تو کئی جوان بچوں کے جنازے دیکھ لیں گی؟ اس بارے سوچنا، اور اس سے بھی بڑھ کر (ان کی مشکلات کو کم سے کم کرنے کیلئے) اقدامات یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

اب آپ بتایئں کون سی خواتین ایسا چاہیں گی کہ بے گھر ہو کر، کسی کھلے میدان میں خیمہ زن ہو کر خوراک کے لیے قطاروں میں کھڑی رہیں۔

ماہرین نفسیات کے کے مطابق جنگ کے اثرات خواتین کی زندگیوں میں طویل عرصہ تک برقرار رہتے ہیں کیونکہ خواتین بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں۔

مانتے ہیں دہشت گردوں سے نمٹنا ضروری ہے لیکن دوسری طرف خواتین، بچوں اور عوام کو بچانا بھی ضروری ہے اس لئے جنگ سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ امن مذاکرت ہی ایک واحد حل ہے۔ لیکن اس سلسلے میں خواتین کی شرکت یا ان کی رائے جاننا بھی اشد ضروری ہے۔

ترقی یافتہ ممالک خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنانے میں مگن اور ان کے تحفظ اور حقوق کے لیے کوشاں ہیں تو یہاں ہمارے حکمرانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ امن کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کا خیال رکھیں کیونکہ اگر عورت کمزور ہو گی تو پورا معاشرہ  کمزور ہو گا۔

اس لئے صاحبان اقتدار سے گزارش ہے کہ تعلیم، صحت و دیگر سہولیات بعد میں دیکھ لیں گے، سب سے پہلے شورش زدہ علاقوں میں پائی جانے والی بے یقینی، اور خوف کا خاتمہ اور قیام امن کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

نازیہ سلارزئی ایک گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button