واہ! مقتدر حلقے بھی میر تقی میر کے مداح نکلے
ابراہیم خان
شاعر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مستقبل میں جھانکنے پر ملکہ رکھتا ہے اور اسی سوچ کی بنیاد پر وہ ایسے شعر کہہ جاتے ہیں جن سے مطابقت رکھنے والے حالات ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہ رائے ہر شاعر کے بارے میں کہی جاتی ہے لیکن اگر عام شاعر کی یہ اہلیت ہے تو اندازہ کیجئے کہ استادوں کے استاد مرزا اسد اللہ خان غالب کن کرشماتی صلاحیتوں کے مالک ہوں گے؟ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس شاعر کی صلاحیتوں کا کیا عالم ہوگا جس کو غالب جیسا استاد خود سے بڑھ کر استاد مان لے۔
کہتے ہیں غالب کو اپنی قابلیت پر بہت ناز تھا اور اسی وجہ سے وہ کسی خود سے بڑھ کر درجہ دینے کو تیار ہی نہ تھا لیکن جب بات میر تقی میر کی آئی تو غالب نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی کہ ۔ ۔ ۔ ۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میر تقی میر محبت کے شاعر دل پھینک بھی تھے اور کئی معاشقے اور محبوبائیں بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی محبوبہ سے ملاقات کے دوران بوسے کا تقاضا کردیا جس پر محبوبہ نے انکار کر دیا اور جب وصل کی گھڑیاں ختم ہوئیں تو میر نے اپنی ناکامی کو شعر کے لبادے میں یوں اتار لیا ۔ ۔ ۔ ۔
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
میر تقی میر کے اس شعر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے محبوبہ پر ویسے ہی الزام دھر دیا، شائد موصوف نے مستقبل میں جھانکتے ہوئے یہ بات پاکستان کے تمام مقتدر حلقوں کے لئے کہی ہے۔ ان حلقوں کو یقین ہے کہ یہ جو بھی کرلیں لیکن عوام کے سامنے اقرار نہ کریں تاکہ عوام بھی انکار کی تکرار کو انجوائے کریں۔ ہمارے سابق عسکری قائد جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو ہی لیجئے وہ ملازمت چھوڑ کر جاتے جاتے یہ اعتراف کرگئے کہ فوج نے ماضی میں سیاسی امور میں مداخلت جاری رکھی جو ادارے کی غلطی تھی جبکہ موصوف یہ بھی کہہ گئے کہ اب فوج اے پولیٹیکل ہوگئی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باجوہ صاحب فرماگئے توکیا ہم اسے من وعن تسلیم کرلیں؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ فوج کا اچانک اے پولیٹیکل ہوجانا بھی بذات خود ایک سیاسی چال قرار دی جاسکتی ہے، بہر حال عسکری حلقے مسلسل انکار کرتے ہوئے یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ وہ اب بھی اے پولیٹیکل ہیں۔ ان کا یہ انکار کہ وہ سیاست میں اب مداخلت نہیں کر رہے میر تقی میر کی محبوبہ کے انکار سے مشابہ ہے اور اس انکار کی تکرار بھی سنی جارہی ہے۔ اس انکار سیریز کو عوام میر کی طرح انجوائے کر رہی ہے جبکہ محبوبہ اے پولیٹیکل ہونے کے دعوے تو کررہی ہے لیکن ادائیں اس کے قول کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ انکار کی یہ تکرار صرف عسکری حلقوں تک محدود نہیں بلکہ حکومتیں بھی یہی کام کرتی رہی ہیں، جیسے وہ کھلم کھلا صوبہ پنجاب میں انتخابات کرانے کے عدالتی حکم کو زبانی کلامی مان بھی نہیں رہی ہیں مگر ساتھ ساتھ عدالت کو یہ سبق بھی دے رہی ہے کہ حکومت کو عدلیہ کا احترام ہے لیکن اب راج پارلیمنٹ کا چلے گا۔ اس سے عدلیہ کا احترام کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس احترام کے بارے میں یہ شعر ذہن میں آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اس فضاء میں 27 اپریل کی تاریخ ( جو کئی حوالوں سے اہم ہیں) قریب آرہی ہے۔ اس دن سپریم کورٹ پھر سے صوبہ پنجاب میں انتخابات کے کیس کی سماعت کرے گا جبکہ اس تاریخ پر جہاں اور بہت سے معاملات واضح ہوں گے وہیں میر تقی میر کی محبوبہ کی طرح انکار کی حقیقت بھی "اہل بصیرت” کو دکھائی دے جائے گی۔ عیدالفطر سے قبل اس مقدمے کی سماعت ہوئی تو عام توقعات تو یہی تھیں کہ بہت گرما گرم سماعت ہوگی۔ "بے چارے ” تحریک انصاف کے جنونیوں کا خیال تھا کہ چیف جسٹس سمیت سماعت کرنے والا بینچ کسی پنجابی فلم کی طرح کوئی کھڑاک کردے گا مگر ایسی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا، معزز بینچ نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا وہ دیدنی تھا۔ عدالت نے سیاست دانوں کی آمد کو خوش آئند تو قرار دیا لیکن یہ کھوج شروع ہوگئی کہ عدالت اس قدر نرم کیوں پڑ گئی؟ اس نرمی کو بہت سے حوالوں سے جوڑا گیا۔ ان میں سب سے اہمیت سپریم کورٹ میں تین اعلی عسکری افسران کی معزز ججز کو دی جانے والی بریفنگ تھی جس سے زیادہ تانے بانے جوڑے گئے۔
اس مفروضے کے ساتھ یہ استدلال جوڑا گیا کہ ماضی میں بھی دامے، درمے، سخنے یہ ہوتا رہا ہے کہ مبینہ طور پرعسکری مداخلت عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے تو عین ممکن ہے کہ کوئی پیغام اس بار بھی تینوں اہلکار دے گئے ہوں۔
اس پیغام کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں لیکن اس کی وجہ سے ججز کا نرم رویہ عیدالفطر کے دوران محفلوں کا موضوع رہا۔ یہ تاثر زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکا۔ یہ تاثر اس وقت غلط دکھائی دیا جب دو خواتین کی ایک نجی آڈیو لیک کی گئی۔ مہذہب ملکوں میں اس قسم کی بے شرمیاں نہیں کی جاتیں۔ رائٹ ٹو پرائیویسی (نجی زندگی کی پردہ پوشی کا حق) بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ شومئی قسمت پاکستان میں کوئی ایسی "نامعلوم قوت” ہے جو جب چاہے اور جہاں چاہے اس کی نجی زندگی وائرل کردے۔ ہمیشہ کی طرح اس آڈیو کے منظر عام پر آتے ہی حکومتی اتحاد گرجنے اور برسنے لگا۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ جن کے نیچے ملک کی زیادہ تر انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کررہی ہیں وہ انتہائی معصومیت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اس آڈیو کا فرانزک کرایا جائے۔ اس آڈیو کی اہمیت یہ تھی کہ اس کے دوران چیف جسٹس کی خوشدامن پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی وکیل کی بیوی کے ساتھ مذکورہ انتخابات پر بات چیت کررہی ہیں۔
رانا ثناء اللہ اس مطالبہ کرنے کے بجائے بہتر ہوتا کہ آڈیو کی فرانزک کرالیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا وہ اس آڈیو کا فرانزک کیا کرتے کہ ابھی اس آڈیو کی دھوم جاری تھی کہ عیدالفطر کے چوتھے روز سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کی ایک اور آڈیو لیک کردی گئی۔
اس آڈیو کے بعد بھی حکمران اتحاد کی طرف سے حسب سابق شور اور مطالبے بھی بڑھ گئے ہیں اس آڈیو کے بارے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں اس آڈیو کو اون نہیں کرتا لیکن جس نے بھی کی ہے، یہ چوری کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے کیا پتہ یہ آڈیو اصلی ہے یاچوری کا مال ہے یہ چوری کا مال ہے جو بِک نہیں سکا، جنہوں نے آڈیو چوری کی ہے انہیں سزا ہونی چاہیے۔ ان آڈیو لیکس کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے اس وقت سے لے کر اب تک لیکس کے منظر عام پر آتے ہی بھونچال آ جاتا ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ریکارڈنگ کون کر رہا ہے؟ جس دن اس سوال کا جواب سامنے آگیا تو اس دن کم از کم یہ واضح ہو جائے گا کہ ان لیکس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟
یاد رہے کہ ان میں سے ایک لیک آڈیو وزیراعظم شہباز شریف کی بھی تھی، یوں اس گروپ کا پتہ لگانا ناگزیر ہےجو بوقت ضرورت حکومت پر بھی "مہربان” ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ تجویز بھی ہے کہ بہتر تو یہ ہوگا سپریم کورٹ خود ان لیکس کی انکوائری ملک کی سب سے زیادہ مستعد وماہر ایجنسی سے کروالے جبکہ سردست ان لیکس کے آنے سے اداروں کے اندر کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جو حالات کو اداروں کے ٹکراؤ کی طرف لے جارہی ہیں۔
ان حالات میں عید کے چوتھے روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ اور اس میں عوام اور پارلیمان کی تکرار سے پھر میر تقی میر کی محبوبہ کا انکار نہ جانے کیوں یاد آگیا۔ بہر حال بدھ کا دن بہت اہم ہے یہ دن اگر ایک طرف سیاسی جماعتوں کے پاس اداروں کے ممکنہ ٹکراؤ کو روکنے کیلئے نادر موقع ہے تو دوسری طرف چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی ناسازی طبع کو بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی بیٹھک کو کوئی کامیابی مل گئی تو حالات بہتر ہونے کی توقع ہے بصورت دیگر سپریم کورٹ کی جمعرات کے روز ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کے بدلے بدلے مناظر بھی متوقع ہیں۔ ان حالات میں آئین کی پاسداری اگر برقرار رہتی ہے تو بھی انکار کی لذت کم کی جاسکتی ہے۔